021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنے بھائی کو اس کی رقم کے بدلے دکان دینے کا حکم
74238خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میری (خالد نظامی کی) ایک دکان تھی، بالکل علیحدہ اورنگی نمبر 5 جامع مسجد غوث اعظم کے پاس، وہ میری ذاتی ملکیت تھی۔ چھوٹے بھائی طارق کا کوئی کام نہیں تھا تو میں نے ان سے کہا اس میں آپ اپنے لیے کوئی کام شروع کریں۔ انہوں نے اس میں کام شروع کیا۔ طارق نے کچھ عرصہ بعد میری اجازت کے بغیر اس دکان کو بیچ دیا، اور والد صاحب سے ناراضگی کرلی کہ میں آپ کا بیٹا نہیں، مجھے کچھ نہیں چاہیے، بس آپ خالد سے کہے کہ میں نے جو دکان بیچی ہے، وہ اس شخص کو دستخط کرکے دیدے۔ اس پر  والد صاحب سخت ناراض ہوئے، انہوں نے کہا میں تو یہ ہونے نہیں دوں گا، یہ اس کی ذاتی دکان ہے۔ والد صاحب نے مجھے بتایا کہ اگر آپ نے یہ دکان ٹرانسفر کردی تو آپ بھی اپنا بندوبست کہیں اور کرلیں۔ میں نے والد صاحب کو سمجھایا کہ نہ دکان جائے گی، نہ آپ دونوں کی ناراضگی ہوگی۔ چنانچہ میں نے ان کی صلح کرائی۔ اس کے بعد طارق نے جس شخص کو دکان بیچی تھی اس سے بات کی کہ آپ اپنے پیسے لے کر یہ دکان واپس کردیں، ہمارے گھر کے معاملات خراب ہو رہے ہیں۔ طارق نے وہ دکان ساڑھے آٹھ لاکھ میں بیچی تھی، تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصول کیے تھے، باقی وصول نہیں کیے تھے۔ میں نے اس شخص کو اس کے ساڑھے پانچ لاکھ روپے دے کر دکان اس سے واپس لے لی۔

پھر والد صاحب نے طارق سے کہا کہ تم نے خالد کی دکان اس کی اجازت کے بغیر بیچ کر غلط کام کیا، رقم بھی لے کر اڑالی، اب میں نے آپ کو جو دکان دی تھا وہ خالد کے نام گفٹ کردیں، تاکہ اس کے اس نقصان کا ازالہ ہوجائے۔ چنانچہ طارق نے کہا ٹھیک ہے دیدیں، ہم (میں، والد صاحب، طارق اور ضیاء الھق) ڈی سی آفس گئے، وہ دکان میرے نام گفٹ لیز کرواکر مجھے دے دی گئی، طارق نے اس پر دستخط کیے۔اس دکان میں پہلے سے میری گاڑی کھڑی رہتی تھی، اس لیے قبضہ میرے پاس تھا۔ اب بھی اس دکان کے ایک حصے میں میری بیوی کی رہائش ہے، اور ایک حصہ کرایہ پر دیا ہے۔

طارق کی یہ دکان جو مجھے دی گئی اس وقت اس کی قیمت میری اس دکان سے کم تھی جو طارق نے ساڑھے آٹھ لاکھ میں بیچ کر ساڑھے پانچ لاکھ روپے لے لیے تھے اور وہ پھر میں نے اس شخص کو دئیے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ دکان میری ہی ہوگی یا اس میں کسی اور کا کوئی حق ہے؟   باقی کوئی کچھ نہیں کہہ رہا، صرف ایک بہن کہہ رہی ہے کہ یہ دکان طارق کی تھی، اسے ملنے چاہیے تھی۔ حالانکہ طارق ہمارے ساتھ رہتے تھے، اس کی بیماری سمیت سارے اخراجات ہم خود اٹھاتے تھے۔ طارق کی یہ دکان مجھے 2008 میں دی گئی، اور طارق کا ابھی انتقال ہوا۔ اس نے اس کے بعد کچھ نہیں کہا، کیونکہ اس نے خود دکان دی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی سوال کے مطابق جواب دیتا ہے، غلط بیانی کر کے فتویٰ لینے سے نہ حلال، حرام ہوتا ہے، نہ حرام حلال، اور غلط بیانی کا وبال بھی سائل پر ہوگا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو آپ کے بھائی کا بغیر اجازت کے آپ کی دکان بیچنا اور اس کی قیمت وصول کرنا ناجائز تھا۔ پھر جب وہ رقم (جو آپ کے بھائی نے آپ کی دکان بیچ کر خریدار سے لی تھی) اس شخص کو آپ نے واپس کی، اور آپ کے بھائی طارق نے اس رقم کے بدلے اپنی رضامندی سے اپنی دکان آپ کو دیدی تھی تو اب یہ دکان آپ کی ملکیت ہے، کوئی اور اس کا حق دار نہیں ہے۔   

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب