74244 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
"آفاق" نامی بندے نے حکومت سے قسطوں پر 2,900,000 میں ایک پلاٹ لیا۔ اس کے بعد "سفر امیر" نے آفاق سے قرض کے طور پر پیسے طلب کیے تو آفاق نے سفر امیر کو اس شرط پر پیسے دئیے کہ یہ پیسے آپ استعمال کریں اور اس رقم سے جو نفع آئے، اس نفع میں سے حکومت کی قسط بھی ادا کرنا اور خدانخواستہ اگر اس دوران حکومت کی طرف سے کوئی جرمانہ عائد ہوا تو وہ بھی سفر امیر ہی کے ذمے ہوگا۔ سفر امیر نے یہ سب کیا، لیکن اس کے باوجود آفاق نے سفر امیر سے 300,000 روپے زائد وصول کیے۔
سوال یہ ہے کہ یہ رقم اس کے لیے جائز ہوگی یا نہیں؟
o
سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آفاق نے جب سفر امیر کو پیسے قرض کے طور پر دئیے تو اسے صرف اتنی ہی رقم واپس لینے کا حق تھا جتنی رقم اس نے دی تھی، اس کا یہ شرط لگانا کہ اس رقم کے نفع سے آپ میرے ذمے لازم حکومت کی قسط بھی ادا کریں گے، اور اگر جرمانہ لازم ہوگا تو وہ بھی ادا کریں گے، یہ قرض پر مشروط نفع ہے جو کہ سود ہے، اور سود لینا دینا جائز نہیں، حرام ہے۔ اسی طرح قرض پر 300,000 مزید اضافہ لینا بھی سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
حوالہ جات
۔
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
21/صفر المظفر/1442ھ
n
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |