021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
معزولی کےبعدتنخواہ کاحکم
74284اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  میں محمد کاشف عفی عنہ ایک مدرس کے حیثیت سے کسی جامعہ میں تدریس کر رہا تھا۔اسی اثنا  میں جامعہ کےمہتممصاحب کے بیٹے شہزاد نے میرے بیٹے محمد کو (جو کہ عمر میں شہزاد سے چھوٹا ہے) مارا۔اس پر میں نے شہزاد کو منع کیا کہ آپ میرے بچوں کو اس طرح سے نہ مارا کرو،یہ چھوٹا ہے، کبھی زیادہ چھوٹ لگ سکتی ہے۔اس کے بعد شہزاد نے جاکر اپنی والدہ کو نہ معلوم کیا کہا؟اور شہزاد کی والدہ نے نہ معلوم اپنے خاوند (مہتمم صاحب) کو کیا کہا؟ اگلے ہی روز مہتمم صاحب آئے   اور مجھ سے فرمایا کہ آپ نے میرے بیٹے کو یہ کیوں کہا کہ آپ اس کو نہ مارا کرو۔آپ نے مجھے کیوں نہیں کہا؟اس سے ہماری بےعزتی ہوتی ہے۔تو میں نے عرض کیا کہ استاجی اس میں بے عزتی کی کیا بات ہے؟ تو مہتممصاحب کہنے لگے کہ عزت اور بے عزتی تو عزت والوں کو ہی معلوم ہوتی ہے۔تو اس پر میں نے دوبارہ پھر کہا کہ استاجی اس میں بے عزتی کی بات کیا ہے؟بس میرا یہ کہنا تھا کہ حضرت مہتمم صاحب نے فرمایا کہ اپنا بستر گول کرو اور چلے جاؤ۔ مجھے جامعہ سے فارغ کردیا گیا۔اب میں مسئلہ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا میں شرعی طور پر  جامعہ والوں سے آئندہ جگہ ملنے تک یا اس سال کی اختتام تک کی تنخواہ  کا مستحق ہوں یا نہیں،جبکہ میرے پانچ بچے ہیں اور اپنا گھر بھی نہیں ہے،کسی طرح کا  کاروبار بھی نہیں ہے۔ محض شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت مطلوب ہے۔(نیز یہ واقعہ 28 اگست 20 محرم الحرام بروز ہفتہ کو پیش آیا ہے۔)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عام طور پر مدرس کا مدرسے کے ساتھ عقد اجارہ پورے سال کا ہوتا ہے ،لہذا مہتممصاحب کے لیے بغیر کسی عذر شرعی کے فریق ثانی کی رضامندی کے بغیر عقداجارہ فسخ کرنا جائز نہیں ہے۔چونکہ فریق اول کا موقف معلوم نہیں اس لیے تفصیل یہ ہے کہ اگر فریق اول نے کسی عذر شرعی کے بنیاد پر عقد اجارہ فسخ کیا ہو تو مدرس باقی سال کے تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ جس مہینے تک تدریسی خدمات سرانجام دی ہو،صرف اس مہینے تک کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔اور اگر بغیر کسی عذر شرعی کےفریق ثانی  کے رضامندی کے بغیر عقد کو فسخ کیا  ہو  تو مدرس  پورے سال کی تنخواہ  کامستحق ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ عقد اجارہ پورے سال کے لیے طے ہوا ہو لیکن اگر شروع سال میں کوئی اور مدت طے ہوئی  ہوتو پھر اس کے مطابق عمل  ہوگا۔

حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله:تفسخ بالقضاء أو الرضا (بخيار شرط ورؤية) كالبيع خلافا للشافعي (و) بخيار (عيب) حاصل قبل العقد أو بعده بعد القبض أو قبله (يفوت النفع به).         
 (الدرالمختار:9 /104 )
              وقال العلامة  الزیلعي رحمه  الله:  قال   رحمه الله  : (والأجرة لا تملك بالعقد  بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه) أي لا تملك الأجرة بنفس العقد، سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه ،وهي المنفعة، أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة....    قال رحمه الله: (و) تنفسخ (بالعذر وهو عجز العاقد عن المضي في موجبه) أي موجب العقد. (تبيين الحقائق:6 /80)
            وقال  العلامة   الکاساني   رحمه  الله :   وأما صفة الإجارة: فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غير عذر....ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع ،وقال  سبحانه وتعالى :{أوفوا بالعقود} [المائدة: 1] والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد، وقال عمر رضي الله عنه :" البيع صفقة أو خيار " جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة ،فلا ينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع.      (بدائع الصنائع:6 /36)
 

         کاظم علی    

دارالافتاء جامعۃالرشید ،کراچی

25 /صفر /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

کاظم علی بن نادر خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب