021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبة المشاع کا حکم
74247ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ ایک بندہ کے چار بیٹے اور چار ہی بیٹیاں ہیں،اپنی وفات سے تقریبا پندرہ سال قبل والد وصیت کرتا ہے کہ چونکہ میرے چاروں بیٹے تعلیم و تعلّم سے منسلک ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی ذاتی ذریعہ معاش نہیں اپناسکتے،لہذا فلاں جگہ پر واقع چار دکانیں صرف میرے بیٹوں کی ہوں گی، تاکہ ان کی آمدن سے گزر بسر ہوتا رہے اور  موجودہ رہائشی مکان بھی صرف بھائیوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

اسی طرح وفات سے تقریباً دس سال قبل والدوصیت کرتا ہے کہ ایک اور فلاں جگہ پر واقع دو دوکانیں( جو کہ نسبتاً بیٹوں کو دی جانے والی چار دوکانوں سے کم مالیت کی ہیں)،وہ میں چاروں بیٹیوں کو دیتا ہوں۔

درج بالا بیان کردہ تفصیل مورث اپنی وفات سے تقریباً پندرہ اور دس سال قبل بحالت صحت و عافیت ،بلا جبر و اکراہ بیان کرتا ہے جس کو تمام ورثاء رضامندی سے تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کے مطابق اسی وقت بعض جائیداد سرکاری ریکارڈ میں درج بھی کروا دی جاتی ہے۔

 پھر وفات سے ایک روز قبل والد وصیت کرتا ہے کہ میری وراثت میں سے دس فیصد  %10حصہ ختم نبوت کے لیے وقف کر کے(درج بالا بیان کردہ تین جائیدادوں یعنی۔چار دوکانوں،مکان اور دو دوکانوں کے علاوہ،کہ وہ پہلی وصیت کے مطابق ہی رہیں گیں) بقیہ تمام جائیداد ورثاء میں تقسیم کر دی جائے۔

والد کی وفات کے بعد وراثت کو درج بالا تفصیل کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے اور تمام ورثاء اس تقسیم کو رضامندی سے تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے وصول کر کے اپنے استعمال میں لے آتے ہیں جیساکہ آگے خرید وفروخت کرنا وغیرہ، اب قابل دریافت سوالات یہ ہیں کہ:

1۔کیا یہ دس سالہ قبل وصیت اور اس کے مطابق تقسیم شریعت کی رو سے درست ہے؟

2۔اگر یہ تقسیم درست نہیں ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کا کیا طریقہ ہو گا؟

3۔ ساری جائیداد کو از سر نو تقسیم کیا جائے گا یا صرف اس کو(چار دوکانیں۔مکان اور دو دکانیں) جس کی تقسیم نہیں ہوئی۔

4۔اگر کل جائیداد کو دوبارہ تقسیم کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ مسائل پیش آ سکتے ہیں،مثلابعض فریقوں نے وہ حصہ جو ان کو والد کی طرف سے ملا تھا،فروخت کر دیا ہے،اسی طرح بعض کے حصہ کی مالی حیثیت وہ پہلے والی نہیں رہی،کسی کی تو بہت بڑھ گئی ہے اور کسی کی اس قدر نہیں۔

5۔وہ دوکانیں جو صرف بھائیوں کے حصہ میں آئی ہیں،ان کا آج تک جو کرایہ وغیرہ آیا ہے اس کا کیا حکم ہوگا اگر وہ دوبارہ تقسیم کے عمل میں آتی ہیں،برائے کرم کتاب وسنت کی روشنی میں اسکا جواب عنایت فرما دیں۔

تنقیح: چار دکانوں کی جگہ تقریباً پونے دو مرلے کی ہے اور اس جگہ دکانیں بننی تھیں،لیکن بنی نہیں، بلکہ ایک شوروم سا بنایاگیا ہے، والد نے یہ جگہ چاروں بھائیوں کو مشترکہ طور پر ہبہ کی تھی،باقاعدہ تقسیم کرکے حوالے نہیں کی تھی اور یہ جگہ قابل تقسیم ہے،یعنی اس میں چار الگ الگ دکانیں بن سکتی ہیں،چاربیٹیوں کو جو دو دکانیں دی تھی،اس کی جگہ تقریبا ایک مرلے کے قریب ہے،یہ بھی والد صاحب نے چاروں بیٹیوں کو مشترکہ طور پر ہبہ کی تھیں،لیکن یہ تقسیم کے قابل نہیں ہے اور یہ دونوں جگہیں بیٹوں اور بیٹیوں کے حوالے کردی گئی تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد میں سے اپنی اولاد کو کچھ دینا ہبہ کے حکم میں ہے اور ہبہ کے صحیح ہونے کے لیے امام ابوحنیفہ رحمہ کے قول کے مطابق قابل تقسیم جگہ کو باقاعدہ تقسیم کرکے حوالے کرنا ضروری ہے،اس کے بغیر ہبہ درست نہیں ہوتا،جبکہ صاحبین کے نزدیک تقسیم کرکے حوالے کرنا ضروری نہیں،اس کے بغیر بھی ہبہ صحیح ہوجاتا،لیکن فقہاء کرام کے نزدیک امام صاحب کا قول راجح ہے۔

اس لیے آپ کے والد نے چار بیٹیوں کو جو  ایک مرلے کے قریب جگہ دی تھی چونکہ وہ قابل تقسیم نہیں،یعنی تقسیم کے بعد وہ انتفاع کے قابل نہیں رہے گی،اس لیے اس جگہ کا ہبہ توبالاتفاق درست ہوگیا تھا اور والد صاحب کی وفات کے بعد وہ جگہ ترکہ میں شامل نہیں تھی۔

البتہ آپ کے والدنے آپ  چار بھائیوں کو جو جگہ دی تھی صاحبین کے قول کے مطابق تو اس کا ہبہ بھی درست ہوگیا تھا،لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے راجح قول کے مطابق اس کا ہبہ درست نہیں ہوا،کیونکہ وہ تقسیم کے قابل تھی اور آپ کے مرحوم والد نے وہ جگہ تقسیم کرکے بھائیوں کو نہیں دی تھی،بلکہ مشترکہ طور پر چاروں  کو ہبہ کی تھی،جس کی وجہ سے والد کی وفات کے بعد یہ جگہ ان کے ترکہ میں شامل تھی اور اس میں تمام ورثہ کا حق تھا۔

لہذا ساری جائیداد کو از سر نو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں،بلکہ صرف ان چار دکانوں کی جگہ میں تمام ورثہ کو حصہ دیا جائے جو چار بھائیوں کو مشترکہ طور پر ہبہ کی گئی تھی اور ان دکانوں کا جو کرایہ بھائیوں نے والد کی زندگی میں استعمال کیا ہے چونکہ وہ والد کی رضامندی سے تھا،اس لیے اس کا ان پر کوئی ضمان لازم نہیں،البتہ والد کی وفات کے بعد سے اب تک ان دکانوں کے کرایہ میں تمام ورثہ کا اپنے شرعی حصوں کے بقدر حق تھا،اس لیے بھائیوں کے حصے کے علاوہ دیگر ورثہ کے حصے میں آنے والی کرایہ کی جو رقم انہوں نے استعمال کی ہے وہ رقم بقیہ ورثہ کو لوٹانا لازم ہے،تاہم اگر بقیہ ورثہ اپنے حصے کی رقم انہیں معاف کرنا چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں،کیونکہ یہ رقم ان کے ذمے دین بن چکی ہے۔

لیکن اگر مذکورہ صورتحال میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول پر عمل کرنے میں زیادہ  دشواری ہو تو تمام روثہ کے باہمی رضامندی سے صاحبین کے قول کے مطابق بھی عمل کرنے کی گنجائش ہوگی۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (6/ 121):
" ولو وهب شيئا ينقسم من رجلين كالدار والدراهم والدنانير ونحوها وقبضاه لم يجز عند أبي حنيفة وجاز عند أبي يوسف ومحمد وأجمعوا على أنه لو وهب رجلان من واحد شيئا ينقسم وقبضه أنه يجوز فأبو حنيفة يعتبر الشيوع عند القبض وهما يعتبرانه عند العقد والقبض جميعا فلم يجوز أبو حنيفة هبة الواحد من اثنين لوجود الشياع وقت القبض وهما جوزاها لأنه لم يوجد الشياع في الحالين بل وجد أحدهما دون الآخر وجوزوا هبة الاثنين من واحد".
"المغني لابن قدامة" (6/ 45):
"فصل: وتصح هبة المشاع. وبه قال مالك، والشافعي. قال الشافعي: سواء في ذلك ما أمكن قسمته؛ أو لم يمكن. وقال أصحاب الرأي: لا تصح هبة المشاع الذي يمكن قسمته؛ لأن القبض شرط في الهبة، ووجوب القسمة يمنع صحة القبض وتمامه. فإن كان مما لا يمكن قسمته، صحت هبته؛ لعدم ذلك فيه. وإن وهب واحد اثنين شيئا مما ينقسم، لم يجز عند أبي حنيفةوجاز عند صاحبيه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب