021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو بیٹیوں اور عصبہ کے درمیان تقسیم میراث کا حکم
74288میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری والدہ محترمہ شریفہ اخترجن کا برضائے الہی انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں:شاہ بینہ اختر،رومینہ اختر اور کوئی رشتے دار نہیں ہے۔ نہ بھائی، نہ چچا،  نہ چچا زاد بھائی اور نہ کوئی محرم مرد ہے۔ میری والدہ کا کوئی بھائی اور بہن بھی نہیں ہیں۔ مفتی صاحب یہ توثیق فرمادیجیے کہ مرحومہ شریفہ اختر کی دونوں صاحبزادیاں جن کے نام شاہ بینہ اختر اور رومینہ اختر ہیں، وہی ان کی وارث ہیں اور وراثت کی حق دار ہیں؟

تنقیح: سائل سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مرحومہ کے چچا زاد بھائی کی  مذکر اولاد بھی ہیں، لیکن وہ پچاس سال سے پاکستان سے باہر ہیں۔ نہ ان سے رابطہ  ہے اور نہ ان کی زندگی اور موت کا علم   ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ معلومات کے مطابق اگر مرحومہ کے چچا زاد بھائی کی اولاد  مرحومہ کے انتقال وقت  زندہ ہوں  تو مرحومہ کی وراثت میں دونوں بیٹیوں  کے ساتھ ساتھ ان کا بھی حصہ ہوگا۔ مرحومہ کے انتقال  وقت ان کی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال  و جائیداد، مکان ، دکان، رقم، سونا، چاندی، زیورات غرض ہر قسم کا سامان مرحومہ کا ترکہ ہے ۔ اگر کسی نے مرحومہ کے کفن و دفن کے اخراجات احسان کے طور پر ادا نہ کیے ہوں تو  مرحومہ کے مال میں سے ان کے کفن و دفن کے مسنون اخراجات کے بعد، ان کے ذمہ اگر قرض واجب ہو تو ان کے ترکہ سے ادا کرنے کے بعد اور اگر مرحومہ کی طرف سے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی (3/1) کی حد تک ادا کرنے کے بعد جو کچھ ترکہ بچے گا اس میں سے دو تہائی حصہ (3/2) دونوں صاحبزادیوں کا ہوگا  اور بقیہ ایک تہائی حصہ (3/1) مرحومہ کے چچا زاد بھائی کی اولاد کا ہوگا، چنانچہ مرحومہ کے چچا زاد بھائی کی مذکر اولاد کو ان کا حصہ پہچانے کی پوری کوشش کی جائے  ۔

حوالہ جات
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْن.
 ( سورۃ النساء: 11)
فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط. (الفتاوی الھندیۃ: 6/500 )

مجیب: محمد ابراہیم شیخا

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

25/صفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ابراہیم شیخا بن محمد فاروق شیخا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب