021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد عورت کتنے وقت تک خاوند کے گھر رہ سکتی ہے؟
74311طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

        ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی، اس کے بعد مطلقہ عورت کتنے وقت کےلیے اپنے سابقہ شوہر کے گھر قیام کرسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   جب تک عدت ہے اس وقت تک وہ خاوندکے گھر مکمل شرعی پردہ کے ساتھ رہ سکتی ہے، لیکن عدت کے بعد  دونوں کا ایک ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے،  البتہ اگر دونوں عمر رسیدہ ہو جانے کی وجہ سے تنہا نہیں رہ سکتے ہوں اور  ان کا  مکان اتنا بڑاہے کہ دونوں اس میں اپنے جوان اولاد کے ساتھ پردہ کا خیال کرتے ہوئے  اجنبیوں کی طرح الگ الگ اس طرح رہ  سکتے ہوں کہ دونوں کے کمرے الگ ہوں، اور ان کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے وہ ایک مکان میں  اپنی جوان اولاد کے ساتھ رہ سکتے ہیں، دونوں کا تنہا ایک گھر میں رہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں  ہے،  اور اگر مذکورہ مکان میں بھی  دونوں شرعی پردہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے،  یا دونوں کے  گناہ میں مبتلا  ہوجانے کا اندیشہ ہو تو  ایسی صورت میں بالکل علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے، اور ایک مکان  میں رہنا جائز  نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
وفی الھدایة:
وعلی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت لقولہ تعالیٰ ولا تخرجوھن من بیوتھن ، والبیت المضاف الیھا ھو البیت الذی تسکنہ وقال علیہ السلام للتی قتل زوجھا اسکنی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجل‘ وان کان نصیبھا من دارالمیت لا یکفیھا فاخر جھا الورثۃ عن نصیبھم انتقلت لان ھذا انتقال بعذر الخ(ہدایہ ج۲ ص ۴۰۸  فصل فی الحداد فتاویٰ عالمگیری ج۱ ص ۵۳۵ایضاً)
وفی فتاوی شامیة:
"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

سید حکیم شاہ

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی پاکستان

27/ ربیع الاول 1443ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب