021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا دعوت وتبلیغ کا کام نہ کرنے والے سے بھی باز پرس ہوگی؟
74287علم کا بیانتبلیغ کا بیان

سوال

السلام علیکم

تحیہ مسنونہ کے بعد گزارش ہےکہ جب میں محلے کی مسجد میں فضائل اعمال کی تعلیم یا وعظ کے لیے بیٹھتا ہوں تو اکژ واعظ صاحب سے سنتا ہوں کہ

  1. ہماری ذمہ داری ہے کہ دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں ، تاکہ سارے لوگ جہنم سے نکل کر جنت میں جانے والے بن جائیں۔
  2. قیامت کے دن یہ کفار اللہ تعالی کے سامنے ہمارے خلاف دعوی دائر کریں گے کہ ان لوگوں کے پاس ایمان کی دولت تھی، لیکن انہوں نے ہمیں نہیں پہنچائی۔
  3. تو کیا ہر روز لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے ایمان یعنی کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہورہے ہیں تو اللہ تعالی روز محشر میں ہم سے  اس کے بارے میں سوال کریں گے؟

تو کیا اس واعظ صاحب کا قول نمبر1: تاکہ سارے۔۔۔۔بن جائیں نص قرآنی خلاف نہیں ہے؟ کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (سورة السجدة: 13)، کیونکہ پھر جنت میں کون جائے گا؟

اسی طرح قول نمبر 2 اس نص قرآنی کے خلاف نہیں ہے؟ قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُون ( سورة السبا: 25)قول نمبر 3 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِر (سورة الغاشية: 22)، وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم (سورة ِِآل عمران: 176)

تو کیا اس واعظ صاحب کے تینوں اقوال نص قرآنی کے خلاف نہیں ہیں؟ نیز مسلک احناف کے مطابق ایک مسلمان پر کس حد تک دعوت کا کام کرنا فرض ہے، جس کے بارے میں اسے روز محشر میں سوال کیا جائے گا؟ نیز والدین کی اجازت کے بغیر سہ روزہ پر جانے کا کیا حکم ہے؟

گزارش ہے کہ تفصیلی، مکمل اور مدلل جواب سے رہنمائی فرمائیں۔ والسلام

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 قرآن کریم سے  ثابت ہے کہ قیامت کے دن کفار اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے عذر تراشیں گے۔ باقی یہ ضروری نہیں کہ ان کا ہر عذر قابل قبول بھی ہو۔

واعظین کا یہ کہنا کہ قیامت کے دن اگر کفار نے ہماری دعوت کے عمل میں  سستی و غفلت کو عذر بنادیا تو کیا ہوگا؟ یہ بات صرف دعوت کے کام کی ترغیب اور فکر دلانے کی حد تک درست ہے باقی اس کی بنیاد پر دعوت  نہ  دینے والے کی گرفت ہوگی یا نہیں؟ یہ الگ موضوع ہے، کیونکہ کبھی دعوت دینا فرض ہوتا ہے، کبھی مستحب اور کبھی جائز  ۔ اسی طرح اگر اس کی وجہ سے کسی کے کفریہ کلمات بولنے کا خدشہ ہوتا ہے تو ناجائز بھی ہوتا ہے،لہذا ہر دعوت کے ترک پر  گناہ نہیں ہوتا اور نہ ہی پوچھ گچھ ہوگی۔

اگر والدین خدمت کے محتاج ہوں اور کوئی دوسرا ان کی خدمت کرنے والا نا ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر سہ روزہ کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی:  فيومئذ لا ينفع الذين ظلموا معذرتهم ولا هم يستعتبون. (سورۃ الروم: 57)
ياأيها الذين كفروا لا تعتذروا اليوم إنما تجزون ما كنتم تعملون.  (سورۃ التحریم: 7)
قال العلامۃ القرطبي رحمۃ اللہ: قوله تعالى: (يا أيها الذين كفروا لا تعتذروا اليوم) فإن عذركم لا ينفع. وهذا النهي لتحقيق اليأس. (إنما تجزون ما كنتم تعملون) في الدنيا. ونظيره: فيومئذ لا ينفع الذين ظلموا معذرتهم ولا هم يستعتبون [الروم: 57]. وقد تقدم.
(الجامع لأحكام القرآن: 18/197)
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا. (سورۃ الإسراء:  23)
قال العلامۃ الحصكفي رحمۃ اللہ: (لا) يفرض (على صبي) وبالغ له أبوان أو أحدهما؛ لأن طاعتهما فرض عين ,وقال - عليه الصلاة والسلام - للعباس بن مرداس لما أراد الجهاد الزم أمك فإن الجنة تحت رجل أمك,سراج وفيه لا يحل سفر فيه خطر إلا بإذنهما. وما لا خطر فيه يحل بلا إذن ومنه السفر في طلب العلم.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمۃ اللہ:( وما لا خطر): كالسفر للتجارة والحج والعمرة يحل بلا إذن إلا إن خيف عليهما الضيعة سرخسي قوله:( ومنه السفر في طلب العلم) ؛ لأنه أولى من التجارة إذا كان الطريق آمنا ولم يخف عليهما الضيعة سرخسي. ( رد المحتار: 4/125)

مجیب: محمد ابراہیم شیخا

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

تاریخ: 26 صفر 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ابراہیم شیخا بن محمد فاروق شیخا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب