74315 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
طلاق کے بعداگربچے اوربچیاں اپنی ماں کے ساتھ رہناچاہتے ہیں تو کیا اس بات کو جوازبناکرشوہرکی جائیداد بچوں کے نام کرنے کا مطالبہ کیاجاسکتاہے؟ یعنی والدکی موجودگی میں بچے اس کے مال کے وارث بن سکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلا ق کے بعد بچوں نے کہاں رہنا ہے ماں کے پاس یا والد کے پاس؟ اس میں بچوں کی رائے کا اعتبارنہیں،بلکہ شرعاً اس میں یہ تفصیل ہے کہ لڑکوں کی عمر سات سال ہونے تک اور لڑکیوں کے بالغ ہونےتک انکی پرورش کاحق ماں کو حاصل ہے بشرطیکہ اس دوان ماں کوئی ایساعمل نہ کرلے جس کی وجہ سےاُسکا حقِ حضانت ختم ہوجائےمثلاً ماں بچوں کے غیرذی رحم مَحرم سے نکاح کرلےیاایسی ملازمت اختیارکرلےجس سےبچوں کی نگہداشت متاثرہوجائے،اگر ایسا کیاتوماں کاحقِ حضانت ساقط ہوجائے گا ،اب حقِ پرورش نانی کو حاصل ہوگا ،اگر نانی حیات نہ ہو یا پرورش نہ کرسکے تو پھر یہ حق دادی کو ہوگا۔
تاہم لڑکے کی عمر سات سال ہونے کے بعد اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد باپ ان کو لے سکتا ہے۔اور لڑکوں کے کمانےکےقابل ہونےاور لڑکیوں کی شادی ہونے تک ان کانفقہ اُنکے باپ پر بقدرِاستطاعت لازم ہے۔
واضح رہے کہ والد اپنی صحت والی زندگی میں اپنے مال و جائیداد کے از خود مالک ہیں ، اور اُن کی زندگی میں اُن کے مال و جائیداد میں کوئی وارث میراث کا مطالبہ نہیں کرسکتا ،لہذا مسئولہ صورت میں مذکورہ خاتون اپنے سابقہ شوہر سے جائیداد اپنے بچوں کے نام کرنے کا مطالبہ نہیں کرسکتی، تاہم صورت ِ مسئولہ میں اگر والد صاحب اپنی خوشی سے اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال وجائیداد تقسیم کرنا چاہیں تو یہ اُن کی طرف سے ہبہ اور گفٹ ہوگا ،جس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی ساری اولاد یعنی بیٹے اور بیٹیوں کو برابر بر ابر حصہ دیں ، جس کو جو حصہ دیں وہ باضابطہ طور پرعلیحدہ علیحدہ کرکے اسے مالک اور قابض بنا کر دیں ، صرف زبانی یا تحریری طور پر دینےیا بغیر تقسیم کیے دیدینے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي - (2 / 284)
والأم والجدة أحق بالغلام حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده ويستنجي وحده وفي الجامع الصغیر
حتى يستغني فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده " والمعنى واحد لأن تمام الاستغناء بالقدرة على الاستنجاء.
ووجهه أنه إذا استغنى يحتاج إلى التأدب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقم والأب أقدر على التأديب والتثقيف والخصاف رحمه الله قدر الاستغناء بسبع سنين اعتبارا للغالب " والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 612)
(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر۔
الفتاوى الهندية - (1 / 563)
ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال کذا فی الخلاصة۔
في بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية (۶/۱۲۷)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل:۹۰] . (وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى
ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لاحق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.
وفی المبسوط للسرخسي ۱۲؍۶۵
شرط القبض منصوص علیہ في الهبۃ فیراعي وجودہ علی أکمل الجهات التي تمکن.
وفی المنصف لابن أبي شیبۃ ۱۰؍۵۲۰ رقم: ۳۸۹۵:
عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: ما بال أحدکم ینحل ولدہ نحلاً لا یحوزها ولا یقسمُہا ویقول: إن متُّ فهولہ، وإن مات رجعتْ إلي وأیم اللّٰہ لا ینحل أحدکم ولدہ نحلاً لا یحوزها ولا یقسمہا، فیموت إلا جعلتها میراثاً لورثتہ.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
27/3/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |