021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جبری جی پی فنڈپرسود کے نام سے ملنے والے اختیاری اضافہ لینے کاحکم
74319سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہم ایک سرکاری ادارے میں کام کرتے ہیں،گورنمنٹ ہماری تنخواہ سے ہرماہ GPفنڈکی مدمیں کچھ رقم کاٹ لیتی ہے اوراس پر کچھ منافع لگادیتی ہے جوکہ گورنمنٹ کے پاس ہمارے نام سے جمع ہوتاہے جوکہ ریٹارمنٹ پر ہمیں واپس کرتےہیں۔

١۔کیایہ منافع سود کے زمرے میں آتاہے یانہیں؟

۲۔دورانِ سروس جب بھی ہم GP فنڈیاپراویڈنٹ فنڈنکلواناچاہیں تو تقریباسترفیصد نکلواسکتے ہیں جوکہ ہرماہ قسطوں کی صورت میں جمع کرانا ہوتاہے اورتقریبا پانچ فیصد زیادہ جمع کراناہوتاہے اورجویہ پانچ فیصد زیادہ جمع کراتے ہیں یہ واپس ہمارے ہی GPفنڈمیں جمع ہوجاتاہے ،کیا یہ GPفنڈ دورانِ سروس ہمارے لیے نکلواناجائز ہے یانہیں ؟

۳۔ ہمارے پاس یہ اختیارہے کہ ہم ایک درخواست دیکرGPفنڈ کو بغیر منافع کے کرواسکتے ہیں ایسی صورت میں جورقم ہماری تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے وہی رقم بغیر منافع کے ریٹارمنٹ پر ہمیں مل جاتی ہے،کیاہمارے لیے GPفنڈ بغیر منافع کے کرواناضروری ہے یانہیں؟

نوٹ1: گورنمنٹ ہماری تنخواہ سے جو رقم کاٹتی ہے وہ ہمارے اختیارمیں نہیں ہے ۔

نوٹ2:یہ یادررہے کہGPفنڈمیں تقریباًتین قسم کی رقمیں شامل ہوتی ہیں:

١١۔ ایک وہ جو ہماری تنخواہ سے کٹتی ہے ۔

  ۲۔دوسری وہ جو گورنمنٹ اپنے پاس سے شامل کرتی ہے۔

 ۳۔ تیسری وہ جو ان دونوں رقموں کوگورنمنٹ کسی کاروبار، بینک یا کسی انشورنس کمپنی  میں انویسٹ کرکے منافع کی شکل میں حاصل کرتی ہے اورپھر اس کو ہمارےGP فنڈ میں شامل کرتی ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(١)جی پی فنڈ جن تین رقوم کا مجموعہ ہوتاہے ان میں سے ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جانے والی رقم اوراس پرحکومت کی طرف سے ملنے واالااضافہ یہ دونوں قسمیں تو ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہیں جنہیں لینا بلاشبہہ جائز ہے ۔جہاں تک اُس تیسری قسم کا تعلق ہے جس میں حکومت ملازم کی مذکورہ بالارقوم کسی سودی ادارے میں رکھواکراس پراضافہ لیکرملازم کی جی پی فنڈ میں جمع کرتی ہےاورریٹارمنٹ پر دیتی ہے  یہ اگرچہ سود نہ ہونے کی وجہ سے فی نفسہ ملازم کےلیے اس  کالیناجائز ہے، لیکن اس سے اجتناب کرنا  اچھا ہے۔

 فی نفسہ لینے کی گنجائش تو اس لیے ہے کہ یہ سود نہیں ہے، اورسود اس لیے نہیں ہے  کہ جب ملازم کی تنخواہ سے یہ رقم جبراًکاٹ دی جاتی ہے تووہ ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی ،کیونکہ نہ اس پرملازم نے قبضہ کیاہوتاہے اور نہ ہی اس کے کسی وکیل نےقبضہ کیاہوتاہے اورجب ملکیت میں نہیں آتی تو ایسی رقوم کے ساتھ حکومت جوبھی معاملہ کرتی ہے وہ یکطرفہ معاملہ ہوتاہے،وہ ملازم کی طرف منسوب نہیں ہوتا،لہذا اس جمع شدہ رقم کو اگر حکومت سود پر دے یا کوئی اور معاملہ کرے یا اس پر خود سود لگائے ، یہ سب یکطرفہ کاروائی شمارہوگی اورملازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا،لہذا اختتامِ ملازمت پر جب حکومت یہ رقم ملازم کو دے تو حکومت کی طرف سے یہ اجرت ہی کہلائے گی ،نہ کہ سود اورملازم کےلیے اس کالینا فی نفسہ جائز ہوگا،اگرچہ حکومت اس کو سود کے نام سےدے۔حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں:

"جبری پر اویڈنٹ فنڈ پر جوسود کے نام پر رقم ملتی ہے وہ شرعاً سود نہیں بلکہ اجرت (تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے"۔

(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ،ص؍۴)

ایک اورجگہ  تحریرفرماتے ہیں:

"جب یہ ثابت ہوگیا کہ پراویڈنٹ فنڈکی رقم نہ ملازم کی مملوک ہےاورنہ فی الحال اس کے تصرفا ت اس میں نافذہیں تو محکمہ اس رقم کے ساتھ جو معاملہ بھی کررہاہے ملازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں اورجس طرح بتصریح "بحر"ملازم کے تصرفات بیع وشراء اس رقم میں شرعاً معتبرنہیں،اسی طرح اس رقم میں ملازم کی طرف سے معاملہ ربابھی ناممکن اورغیرمعتبرہے ،اس رقم میں محکمہ کے جملہ معاملات کی ذمہ داری خود محکمہ پر عائد ہوتی ہے،ملازم پر نہیں،محکمہ کے یہ تصرفات نہ ملازم کے مال مملوک میں ہیں اورنہ اس میں محکمہ ملازم کا وکیل ہے۔لہذا جس وقت محکمہ اپنایہ واجب الاداء دین ملازم کو اداکرتاہے اوراس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملاکردیتاہے(یہ مزید رقم خواہ وہ ہوجو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتاہے اورخواہ وہ ہوجو سالانہ سود کے نام سے اس حساب میں جمع کی جاتی ہے)تو یہ بھی محکمہ کااپنایک طرفہ عمل ہے،کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا حکم نہیں دیا تھا،اوراگرحکم دیا بھی ہو تو اس کایہ حکم شرعاً معتبرنہیں،اس لیے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے، بنابریں محکمہ پرویڈنٹ فنڈکی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے سے دے رہاہے اس پر شرعی اعتبارسے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی ،خواہ محکمہ نےاسے سود کا نام لے کردیاہو۔"(جواہرالفقہ 3/277)

اوریہ اضافی رقم لینے سے اجتناب اس لیے کرناچاہیے کہ پراونڈنٹ فنڈکی اصل کٹوتی اختیاری ہونے کی صورت میں علماء کرام نے سودکے نام سے ملنے والی اضافی رقم لینے سے اجتناب یا لے کرصدقہ کرنے کا استحبابی حکم دیاہے ،اوراس کی وجہ تشبہ بالربااورذریعہ ربا ہونا بیان فرمایاہے۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں:

"جبری اوراختیاری فنڈ:

احکام مذکورہ کی جو علت اوپر ذکرکی گئی ہے،اس کی رو سے جبری اوراختیاری دونوں قسم کے پرویڈنٹ فنڈکا حکم یکساں معلوم ہوتاہے،تنخواہ محکمہ کے جبری کٹوتی سے کٹوائی گئی ہو یا اپنے اختیارسے،دونوں صورتوں میں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں۔لیکن اخیتاری ہونے کی صورت میں اس پر جو رقم بنامِ سود دی جاتی ہے ،اس سےاجتناب کیاجائے،خواہ محکمہ سے وصول نہ کرے یا وصول کرکے صدقہ کرے ۔"(جواہرالفقہ 3/278)

لہذا جب اصل کٹوتی اختیاری ہونے کی صورت میں سود کے نام سے ملنے والی اضافی رقم سے اجتناب کاحکم دیاگیاہے تو خود وہ اضافی رقم اختیاری ہونے کی صورت میں بدرجہ اولی اسے لینے سے اجتناکرناچاہیے یا لے کرصدقہ کردیناچاہیے۔تاہم اگرکوئی لے کراستعمال کرے تو ا سے سود کا استعمال نہیں کہاجائے گا۔

یہ تمام تفصیلات اس صورت میں ہے جب محکمہ یہ فنڈ خود چلائے لیکن اگرمحکمہ نےاس فنڈ کو چلانے کےلیے کوئی کمیٹی بنادی  ہوکہ وہ اس فنڈ کو چلائے تو پھر جو کمیٹی ہے وہ ملازمین کی نمائندہ اوروکیل ہوگی،اس کا قبضہ مؤکل کا قبضہ ہوگااورجب اس کا قبضہ ہوجائےگاتووہ ملازم کی ملکیت میں آجائے گا،اورجب ملکیت میں آجائے گا توپھراگریہ کسی سودی معاملات میں اس کو چلائےگا تو یہ خود ملازم کے چلانے کی طرح ہوگا،لہذا اس صورت میں یہ سود ہوگا جس کا لیناملازم کےلیےجائزنہیں ہوگا۔

چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:

"میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا رسالہ "پراویڈنٹ فنڈپر زکوة اورسود کا مسئلہ" چھپاہواہے ،اس میں اسی پر(کہ یہ اضافہ سودنہیں ہے) فتوی دیاہے ،لیکن جس وقت یہ فتوی دیاتھا اس میں اورآج کے حالات میں تھوڑا فرق ہوگیاہے ،اس لیے یہ فتوی نظرثانی کے محتاج ہوگیاہے،اُس وقت محکمہ جو کچھ کرتاتھا اپنے طورپر کرتاتھا اس میں ملازم کا کوئی دخل نہیں تھا اوراب طریقہ یہ ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ کو چلانے کےلیے خودمحکمہ کی طرف سے ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے کہ اس فنڈ کو چلائیں تو جو کمیٹی ہے وہ ملازمین کی نمائندہ اوروکیل ہوگئی،اس کا قبضہ مؤکل کا قبضہ ہے، قبضہ ہونے کے بعد وہ اس کی ملکیت میں آگئی،اب اگروہ اس کو کوکسی سودی معاملات میں چلائیں گے تو یہ خود ملازم چلارہاہے ،لہذ اس کےلیے لینا جائز نہ ہونا چاہیئے"(اسلام اورجدیدمعاشی مسائل 4/88)

﴿۲﴾۔ جی پی فنڈ  دورانِ سروس ملازمین کےلیےنکلوانااورپھر اضافے کے ساتھ واپس جمع کراناجائز ہے۔

﴿۳﴾۔ اگرجواب نمبر ایک میں ذکر کردہ پہلی صورت ہوتو چونکہ یہ سود نہیں، لہذا تواس کے رکھوانے کےلیے درخواست دینابھی ملازم پرلازمی نہیں ،البتہ درخواست دیکررکھوانا جب اختیارمیں ہے تو یہ اختیاری کٹوتی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اس کےرکھوانے کےلیے درخواست دینا بہترہوگا تاہم ضروری نہیں۔اوراگرجواب نمبر ایک میں ذکر کردہ دوسری  صورت ہوجس میں محکمہ اس فنڈکےلیےکمیٹی بناکر اس  کے حوالے کرتی ہےاوروہ ملازمین کے ہدایات کے مطابق کام کرتی ہے تو چونکہ یہ صورت سودکی ہے، لہذا اس کے رکھوانے کےلیے درخواست دینابھی ضروری ہوگاکہ یاتومحکمہ اس کمیٹی کو ملازم کا فنڈسرے سے دے ہی نہ یا اگردے تو ملازم اس کمیٹی کو پابند کرے کہ وہ اس کاجی پی فنڈ کسی حلال کاروبارمیں نفع اورنقصان کی بنیاد پر لگائے،اورسودی معاملات میں نہ لگائے ۔

حوالہ جات
وفی البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي (7/ 300)
(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أوبالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلابواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره. لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها.
وفی الفتاوى الهندية (4/ 413)
ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي. وكما يجب الأجر باستيفاء المنافع يجب بالتمكن من استيفاء المنافع إذا كانت الإجارة صحيحة حتى إن المستأجر دارا أو حانوتا مدة معلومة ولم يسكن فيها في تلك المدة مع تمكنه من ذلك تجب الأجرة، كذا في المحيط..

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 29/2/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب