021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پہلی بیوی کے گھر چھوڑنے کی دھمکی سےدوسری کوطلاق کی نیت سےمیسج کا حکم،مجبورا میری طرف سے تم آزاد ہوکہنا
74370.0طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میں نے اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر ایک بیوہ سے نکاح کر لیا،جب میری پہلی بیوی کو میرے نکاح کا علم ہوا تو اس نے طوفان کھڑا کر دیا اور میرے گھر سے ہمیشہ کے لئے چلے جانے کی دھمکی دی،بلکہ چلے جانے کی تیاری بھی شروع کر دی،میں شدید ذہنی دباو کا شکار ہوا، کئی دن کی بحث اور جھگڑے کے سبب مجھے اپنا گھر بچانے اور اپنی پہلی بیوی کو خوش کرنے کے لئے اپنی دوسری بیوی کو مجبوراً طلاق دینا پڑی،جو کہ میں ہرگز دینا نہیں چاہتا تھا،یہ طلاق میں نے فون پر ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے بھیجی،جس میں صریحاً طلاق کا لفظ نہیں لکھا تھا،“میری طرف سے تم آزاد ہو”یا اس طرح کے الفاظ تھے،جن کو میری دوسری بیوی کئی دن تک سمجھ ہی نہ سکی کہ یہ طلاق ہے،بہرحال میں چونکہ دل سے طلاق دینا چاہتا ہی نہیں تھا،اس لئے موقع ملتے ہی میں نے رجوع کر لیا اور اپنی پہلی بیوی سے چھپائے رکھا،ایک مرتبہ پھر اس کو علم ہونے پر اُسی طرح کا ہنگامہ کھڑا ہوا اور وہ گھر سے ہمیشہ کے لئے چلے جانےکی دھمکی دینے لگی،میں اپنے بچوں کی خاطر اس گھر کو بچانے کےلئے ایک مرتبہ پھرمجبورہوگیااوردوسری بیوی کودوسری مرتبہ طلاق اُسی طرح میسج میں لکھ کربھیج دی، جبکہ میں دل سے یہ طلاق نہیں دینا چاہتا تھا،اسی طرح تیسری مرتبہ پھر یہ کہانی دہرائی گئی،جبکہ میں نے مجبوراً دی ہوئی دوسری طلاق کے چند دن بعد ہی رجوع کر لیا تھا،تیسری طلاق دیتے وقت میں پہلے سے زیادہ شدید ذہنی دباو میں مبتلا ہو گیااورمیں اپنی پہلی بیوی کے احتجاج پر اس نتیجے پر پہنچا کہ دونوں بیویوں میں سے ایک کو ہی رکھاجاسکتا ہے،لہذا تیسری مرتبہ بھی اُسی طرح میسیج میں لکھ کر طلاق بھیجی، وہ میسیج بھیجنے کے بعد اپنی پہلی بیوی کودکھایا تاکہ وہ خوش ہو جائے اور میرا یہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے،میرا گھر تو ٹوٹنے سے بچ گیا،لیکن دوسری بیوی کومجبوراً طلاق دینا پڑی جو نہ میں دینا چاہتا تھااور نہ وہ لینا چاہتی تھی۔ اب میرا مؤدبانہ سوال ہےمفتی صاحب سے کہ کیا یہ مجبوری میں دی ہوئی طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟ شریعت اسلامیہ کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصولی طور پر بیوی کے گھر سے چلے جانے کی دھمکی شرعی مجبوری(اکراہ) کے مفہوم میں داخل نہیں،(خیرالفتاوی:ج۵،ص۱۶۲ تا ۱۶۸)لہذاایسی صورت میں  سؤال  میں پوچھی گئی صورت میں میں لفظ آزاد کےباربارلکھ کر میسج کرنےسے صرف ایک طلاق بائن واقع ہوگی۔

البتہ بعض فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکرہ اورفعل مہدد بہ میں  حکمی غیر یت بھی  کافی ہے،اور بواسطہ ضرر کا لاحق ہونا بھی بعض صورتوں میں معتبر ہے،چنانچہ صورت مسؤولہ میں بھی بیوی کے گھر سےچلےجانے سے شوہر کےچھوٹے،کم عمر بچوں کی دیکھ،بھال اور تربیت کا مفقود یا مخدوش ہوجانا یقینا شوہر پر اثر انداز ہوتاہے۔

لہذا درج ذیل شرائط کے ساتھ بیوی کے گھر سے چلے جانے کی دھمکی   شرعی مجبوری بن سکتی ہے۔

۱۔بیوی بچوں والی ہو۔

۲۔ بچے چھوٹے اور کم عمر ہوں یا کوئی ایسا بڑا بچہ ہو جو دیکھ بھال کا محتاج ہو۔

۳۔ ان کی دیکھ بھال اور تربیت کا کوئی متبادل بندوبست نہ ہو سکے۔

۴۔اور بیوی کو اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی قدرت بھی ہو۔

۵۔ شوہر کو ظن غالب ہو کہ اگر طلاق نہ دے گا توبیوی،یہ اقدام کر لےگی۔

۶۔بیوی کی طرف سے مطالبہ نہ مانے جانے پراپنااقدام فوری واقع کرنے کی دھمکی ہو۔

۷۔ شوہر کی خاندانی یا منصبی حیثیت کے پیش نظر بچوں کی تربیت ودیکھ بھال سے محرومی اس پر شدید ذہنی دباؤ کا باعث بھی ہو۔

۸۔ بیوی  کے مزاج کے پیش نظر ظن غالب ہو کہ واپس نہیں آئے گی۔

اس صورت حال سے شوہر اگر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا ہو اور وہ دوسری بیوی کو طلاق دینے پر اپنے کو مجبور پاتا ہو اورزبان سے الفاظ طلاق ادا نہ کئے ہوں تو صرف  لکھنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

عبارات فقہیہ اس بارے میں مختلف ہیں،بعض سے بہت شدت اور بعض سے بہت تخفیف معلوم ہوتی ہے،اس لیے درمیانی صورت پر فتوی دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے،البتہ چونکہ شوہر کے حالات کے پیش نظر فرق پڑے گا،اس لیے شرائط میں قدرے سختی اختیار کی گئی ہے۔

فتاوی رحمیہ میں "اکراہ کی ایک نادر صورت" کے عنوان کے تحت ایک ایک سؤال کے جواب میں لکھا ہے کہ"۔۔۔ یا انتہائی ذلت کے خوف سے اگر طلاق زبانی ( کلمات زبان سےبول کر) دی جائےتو وہ واقع ہوجاتی ہے اورزبان سے بولے بغیر صرف تحریر لکھ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی،پس صورت مسؤلہ میں چونکہ شوہر ذی منصب وذی جاہ بھی ہے اورواقعہ تحریری طلاق کا ہے،اس لیے طلاق واقع نہ ہوگی،"الخ اس کے بعد متعدد حوالجات سے مکرہ کی حالت کےاکراہ کے تحقق میں اثر انداز ہونے کو ثابت کیا ہے اور آخر میں فتاوی دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے لکھا ہے کہ والد کی خفگی اورناراضگی کو بھی اکراہ میں داخل مانا گیاہے۔( فتاوی رحمیہ:ج۸ص۲۷۱ تا ۲۷۳ )

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 130)
(أو حبس) أو قيد مديدين بخلاف حبس يوم أو قيده أو ضرب غير شديد إلا لذي جاه درر
(قوله: أو حبس) أي حبس نفسه قال الزيلعي: والإكراه بحبس الوالدين أو الأولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بملجئ ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه اهـ لكن في الشرنبلالية عن المبسوط: أنه قياس وفي الاستحسان حبس الأب إكراه وذكر الطوري أن المعتمد أنه لا فرق بين حبس الوالدين والولد في وجه الاستحسان زاد القهستاني: أو غيرهم: من ذوي رحم محرم وعزاه للمبسوط.
 
مجلة الأحكام العدلية (ص: 193)
(مادة 1003) يشترط أن يكون المجبر مقتدرا على إيقاع تهديده , بناء عليه لا يعتبر إكراه لم يكن مقتدرا على إيقاع تهديده وتنفيذه.
(مادة 1004) يشترط خوف المكره من المكره به. يعني يشترط حصول ظن غالب للمكره بإجراء المجبر المكره به إن لم يفعل المكره عليه.
 (مادة 1005) إن فعل المكره المكره عليه في حضور المجبر أو حضور تابعه يكون الإكراه معتبرا. وأما إذا فعله في غياب المجبر أو تابعه فلا يعتبر ; لأنه يكون قد فعله طوعا بعد زوال الإكراه. مثلا لو أكره أحد آخر على بيع ماله وذهب المكره وباع ماله في غياب المجبر ومن يتعلق به فلا يعتبر الإكراه ويكون البيع صحيحا ومعتبرا.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۴ربیع الاول۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب