021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں یا بشر ؟
72040انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلاممتفرّق مسائل

سوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں یا بشر؟اس کی تفصیل بتادیں۔

 

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام بشر ہی ہیں،باقی نور کا معنی  روشنی ہے اور روشنی خود بھی ظاہر ہوتی ہے اوردوسری اشیاء کو بھی روشن اور ظاہر کردیتی ہے، اسی مناسبت سےقرآن پاک میں ہدایت کو بھی مجازاً نور کہا گیا ہے اور  حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی نور کہا گیاہے،کیونکہ وہ خود بھی ہدایت پر ہیں اور دوسروں کے لیے بھی وصول الی اللہ کے راستوں کوظاہر کرنے والے اور صراطِ مستقیم کی ہدایت کرنے والے ہیں۔

اس طرح  نور وبشریت میں کوئی تضاد  نہیں ہے،بلکہ اس  میں تضاد کی وجہ  کفار کا عقیدہ تھا، وہ کہتے تھے کہ رسول صرف فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔ حاصل  یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی،  اور ان دونوں باتوں میں تطبیق اس طرح ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذات کے اعتبار سے بلاشبہ بشر تھے،کیونکہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ کے گھر پیدا ہوئے تھے اور قرآن میں آپ  کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے ”بشر ہونے کا صریح لفظوں میں اعلان کریں“ قل إنما أنا بشر مثلکمُُ‘‘ یعنی آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں،ان صفات کے اعتبار سے اورمجازی معنی میں  آپ علیہ السلام ”نور“ تھے،کہ  آپ کی برکت سے کفر و شرک کی ظلمتیں دور ہوئیں، لہٰذا اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر مانتے ہوئے صفات کے اعتبار سے مجازاً آپ ﷺ کے نور ہونے کا عقیدہ رکھے تو اس میں تو  کوئی حرج نہیں ہے،لیکن اگر کوئی بشریت کا انکار کرے یا ذات کے اعتبار سے آپ ﷺ کےبشر و نور دونوں ہونے کا عقیدہ رکھے تو یہ درست نہیں ہے۔

حوالہ جات
تفسير النسفي  مدارك التنزيل وحقائق التأويل (1/ 436)
{قَدْ جَاءَكُمْ مِّنَ الله نُورٌ وكتاب مُّبِينٌ} يريد القرآن لكشفه ظلمات الشرك والشك ولا بانته ما كان خافياً على الناس من الحق أو لأنه ظاهر الإعجاز أو النور محمد عليه السلام لأنه يهتدى به كما سمي
سراجا ۔
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، المعروف بتفسير الألوسي (9/ 175)
( قل إنما أنا بشر مثلكم ( لست ملكا ولا جنيا لا يمكنكم التلقي منه۔
إعانة المستفيد بشرح كتاب التوحيد (2/ 91)
وقوله: {إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ} يعني: ليس لي من الربوبية شيء ولا من العبادة شيء.
{أَنَا بَشَرٌ} عبدٌ من عباد الله.ففيه: ردٌّ على الذين يغلون في حق الرسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ويدعونه من دون الله، ويستغيثون به من دون الله، أو يقولون: إنه مخلوقٌ من نور، أو من كذا وكذا، ولم يُخلق ممّا خُلق منه بنو آدم وأنه مخلوق قبل آدم.
ثمّ قال: {مِثْلُكُمْ} يعني: مثلكم في أمور البشريّة، فهو بشر يجوع، ويمرض، ويتعب في السفر مثل البشر وتجري عليه العوارض البشرية كما تجري على البشر، فيُصيبه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الهم، ويصيبه الحَزَن، ويصيبه ما يصيب البشر۔

وقاراحمد بن اجبرخان

 دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

۱۱رجب المرجب۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب