74379 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میں ایک سرکاری ملازم ہوں،حکومت پاکستان کرایہ کی مد میں ہمیں 27000روپے تک ماہانہ اداکرتی ہے اوریہ رقم ہمارے مالک مکان کو ادا کی جاتی ہے،اب اس لحاظ سے میرے مندرجہ ذیل تین سوالات ہیں:
١١۔ پہلی بات یہ ہےکہ اگر ہم اس مہنگائی کے دورمیں رقم پوری لیں (مطلب کہ ہم حکومت سے معاہدہ پوری رقم کا کریں)اورکرایہ کا سستاگھر لے لیں مثلاً 20000تک، توکیا یہ اوپر کے 7000روپے ہمارے لیے لینا جائز ہے ؟
۲۔دوسراسوال یہ ہے کہ اگر اوپر والی بات ناجائز اورحرام ہے تو کیا ہم یہی رقم اس نیت سے اگر لے لیں کہ بعض جگہ پر ہم سے جائز کام پر رشوت کا تقاضہ کیاجاتاہے تو ہم وہ والی رقم چھوڑدیں گے اوراس میں سے اپناحق لے لیں گے۔
۳۔مالک مکان کو ادائیگی کےلیے گھر کے چند کاعذات حکومت کو دینے پڑتے ہیں جوکہ تین سال تک کارآمد ہوتے ہیں لیکن جیسا کہ ہم کرایہ دارلوگ ہیں اورہر کچھ دن بعد جگہیں بدلنی پڑتی ہیں توکیا ہم کسی دوست یا رشتہ دارکے کاغذات جمع کرواسکتے ہیں تاکہ باربارگاغذات تبدیل نہ کرنے پڑیں،کیونکہ تین سال کے دوران اگرتبدیل کریں تو بہت لمبا اورمشکل طریقہ ہے اوراس کے علاوہ بعض مکان کے کاغذات بھی درست نہیں ہوتے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)اگرآپ کے ادارے میں کرایہ تنخواہ کے ساتھ تملیکاً (مالک بناکر) دیاجاتاہے تو پھرآپ کے لیے ایسا کرناجائزہے بشرطیکہ کہ ادارہ صراحتاً اس کی ممانعت نہ کردے اوراگرآپ کے ادارے میں کرایہ تملیکانہیں دیاجاتاہے بس جس کو ضرورت ہو اسی کو ضرورت کے مطابق دیاجاتاہے اورآپ کےمسئلےمیں اسی کازیادہ امکان ہے اس لیے کہ آپ نے لکھاکہ یہ( کرایہ ملازم کے بجائے) مالکِ مکان کو دیاجاتاہے،ایسی صورت میں آپ کےلئے حکومت سے پوراکرایہ لیکرکم کرایہ والے مکان میں رہنا اورکرایہ بچانا جائز نہیں ہوگا،اگر بچالیا تووہ حکومت کو واپس کرنا پڑےگا۔
(2)نہیں، اس نیت سے بھی آپ زیادہ کرایہ نہیں لے سکتے۔
(3)نہیں،ایساآپ نہیں کرسکتے،اس میں دھوکہ ہے جوشرعاً جائزنہیں ہے۔
حوالہ جات
اذَا کَانَ یَعُوْلُ یَتِیْمًا وَیَجْعَلُ مَا یَکْسُوْہُ وَیُطْعِمُہ مِنْ زکوٰةِ مالہ فَفي الکسوةِ لاشکَّ في الجوازِ لِوُجودِ الرُّکْنِ وَھوَ التَّملیکُ، وأمّا الطعامُ فَمَا یَدفعہ الیہ بِیَدِہ یَجوزُ أیضاً لِما قُلنا بِخلافِ مَا یأکُلہ بِلا دفعٍ الیہ (ردالمحتار ۳/۱۷۲ زکریا)
صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبہ بعقد فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستیئجار علی المعاصي أو بغیر عقد کالسرقۃ، والغصب، والخیانۃ، والغلول، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ولکن إن أخذہ من غیر عقد لم یملکہ، ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء سہارنپور ۱/ ۳۷، دارالبشائر الإسلامیۃ ۱/ ۳۵۹، رقم الحدیث ۵۹، ہندیۃ، زکریا قدیم ۵/ ۳۴۹، جدید ۵/ ۴۰۴، شامي، زکریا ۹/ ۵۵۳، کراچی ۶/ ۳۸۵، البحرالرائق، زکریا ۹/ ۳۶۹، کوئٹہ ۸/ ۲۰۱)
ما حرم اخذہ حرم اعطاء ہ (الأشباہ لابن نجیم:ص:۱۵۸ )
قال صلی اللہ علیہ وسلم: من غش فلیس منا (سنن الترمذي،أبواب البیوع،باب ما جاء في کراہیة الغش في البیوع ۱:۴۵، رقم: ۱۳۱۵)، لافرق بین الکذب بالکتابة أو التکلم(تکملة رد المحتار ۱: ۱۵۹ط مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی :ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
28/2/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |