021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث میں مرحوم کی بیٹیوں کو حصہ نہ دینا
74382میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہم دو بہنیں ہیں۔ بچپن میں ہمارے ساتھ ایک حادثہ ہوا اور اس حادثہ میں ہمارے والد صاحب وفات پاگئے۔ اس وقت ہم دو بہنوں کی عمریں تقریبا ڈیڑھ سال اور تین سال تھی۔ ہماری پرورش ہمارے دادا جان اور دادی جان نے کی۔ ہمارے والد صاحب کے اندرونِ شہر لاہور میں دو مکان تھے جو ہمارے والد صاحب کی ملکیت تھی۔ ہمارے والد صاحب کی وفات کے بعد ہمارے چچا نے وہ مکان فروخت کردیے۔ ہمارے دادا جان اس وقت زندہ تھے، لیکن مکان ہمارے والد صاحب کی ذاتی ملکیت تھی۔ مکان کے اندر موجود تمام تر سامان بھی ہمارے چچا نے نیلام کردیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اب ہمارا حق بنتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہمارا چچا حق دینے سے انکاری ہے، وہ کہتا ہے کہ آپ کا کوئی حق بنتا ہی نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کسی شخص کا انتقال ہو اور اس کی اولاد میں بیٹا کوئی نہ ہو، بلکہ ایک سے زائد بیٹیاں ہوں تو ان کو اپنے والد کی پوری میراث کا دو تہائی حصہ ملتا ہے۔ لہٰذا آپ کے چچا کا آپ کے والد صاحب کے مکانات فروخت کرنا اور آپ کو سرے سے حصہ نہ دینا یا اس میں کمی بیشی کرنا سخت ناجائز اور حرام ہے۔کسی وارث کو میراث سے بالکل محروم کرنا یا اس کا حصہ پورا پورا نہ دینا ظلم اور غصب ہے، جس پر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔  قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:-

 إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْما إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا  [النساء: 10]

  ترجمہ:یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں ،وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں ، اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔(آسان ترجمہ قرآن:187) 

حدیث شریف  میں ہے: "من قطع میراثاً فرضه الله ورسوله قطع الله میراثه من الجنة." (شعب الایمان للبیهقی: 224/6 )                  

ترجمہ:جس نے الله اور  اور اس کے رسول(ﷺ) کی مقرر کردہ میراث کو ختم کیا،(یعنی کسی

وارث کو اس حق سے محروم کیا )تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی میراث سے محروم کر دیں گے ۔

بلکہ جب آپ کے والد صاحب کی وفات کے وقت آپ کے دادا زندہ تھے تو شرعا آپ کے کسی بھی چچا کا آپ کے والد صاحب کی میراث میں کوئی حصہ نہیں بنتا۔ لہٰذا اب آپ کے چچا پر لازم ہے کہ آپ کے والد صاحب کی میراث کی ہر چھوٹی بڑی چیز اس کے ورثا کے سپرد کردے، اور اب تک ان کا حق ان کو نہ دینے کے سنگین جرم پر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاکر توبہ و استغفار کرے۔ اگر اس نے میراث کی کوئی چیز خرچ کی ہے تو اب اس کا بدل ورثا کو دینا اس کے ذمہ لازم اور ضروری ہے۔  

حوالہ جات
القرآن الکریم، [النساء: 11]:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ }
السراجی فی المیراث، ص 38-36:  
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا، ثم أصله أی الأب ثم الجد أی أب الأب و إن علا، ثم جزء أبیه أی الإخوة ثم بنوهم و إن سفلوا، ثم جزء جده  أی الأعمام ثم بنوهم و إن سفلوا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/ربیع الاول /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب