03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف الفاظ سے تعلیق طلاق کا حکم
74378طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی بیوی نے کسی کے ساتھ رابطہ  کیا فون پر اور اسکے بارے میں زید کو پتہ چلا ۔ تو دو تین دن زید اس کے ساتھ جھگڑا کرتا رہا اور وضاحت مانگتا رہا اور ۔۔۔۔پھر زید نے بیوی کو فون پر کہا کہ اگر تم نے میرے علاوہ کسی  کو میسج کیا یا کال کی یا واپس میسج کیا، چاہے  واٹس ایپ کے ذریعے  ہو یا فیسبوک ہو یا ایمو وغیرہ ہو  تو پھر طلاق ہوگی۔۔ میرا مطلب صرف غلط قسم کا رابطہ یا میسج وغیرہ تھا ۔۔ پھر بعد میں میں  نے بیوی کو بولا کے میرے کہنے کا مطلب تمہارا بھائی اور جیجو اور میرا بھائی نہیں تھا ۔۔ یعنی وہ لوگ جو غیر ہوں وہ مراد تھے۔

                           پھر میں نے یہ بھی کہا کہ  میرے علاوہ نہ کسی کو دل میں لاؤگی  اور نہ   میرے علاوہ کسی کے بارے میں سوچو گی، اور نہ   میرے علاوہ کسی  اور کی طرف دیکھوگی ۔یہ سب بھی بول دیا تھا لیکن یہ پہلے جملے کے ساتھ بولا تھا یا الگ سے بول دیا تھا اب پتہ نہیں۔

                           زید کے  کہنے کا مطلب صرف غلط قسم کا رابطہ کرنا اور غلط نظر سے دیکھنا   تھا ۔اگر غلط قسم کا رابطہ کریگی تو۔۔۔ زید کے ذہن میں صرف یہی تھا صرف اسے  غلط رابطہ کرنے سے منع کرنا مقصود تھا ۔ اب اس صورت میں مجھے یہ جاننا ہے کے صرف اسی ایک شخص کی طرف دیکھنے سے یا دل میں لانے سے یا کال کرنے سے طلاق ہو جائے گی یا عام کسی کو بھی میسج کرنے سے یا دیکھنے سے طلاق ہو جائیگی ؟؟۔۔۔۔

                           ایک دن زید کی منکوحہ بھی واٹس ایپ میں آن لائن تھی اور وہ شخص بھی ان لائن تھا تو زید کو شک ہوا اور غلط فہمی کا شکار ہوا۔۔ تو  اپنی منکوحہ کو بتایا کہ۔۔ تم نے تو میسج نہیں کیا ہے اس نے کہا کے نہیں کیا ہے، تو زید نے ڈر اور خوف کی وجہ سے  اور اپنی منکوحہ کو سمجھانے کے لیے اور یاد دیہانی کے لیے کہا کہ میں نے تم کو پہلے بھی بتایا تھا اور اب پھر بتاتا ہوں کہ اگر تم نے اس نمبر کو صرف hi hello میسج بھی کیا تو طلاق  ہوگی طلاق ہوگی۔۔۔۔ کئی  بار بولا تو سانس رک گئی  پھر کئی بار  بولا اور کہا  دس بار اور کہتا ہو کے طلاق ہوگی طلاق ہوگی طلاق ہوگی۔۔۔ تاکہ صحیح طرح سن سکے اور کانوں میں گھس جائے ۔۔ اس وقت  زید کا بولنے کا مطلب یاد دیہانی تھا ۔ تاکہ ایسا نہ ہو کے میسج کریں اور نکاح ٹوٹ جائے ۔

                           ۲۔ایک مسئلہ اور بھی ہے وہ یہ کہ میں نکاح کے بعد انہی باتوں کے دنوں میں دو بار اپنی بیوی سے ملا بھی اس طور پر کہ اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر ساتھ بوس و کنار بھی کیا اور گلے بھی لگایا ، گاڑی کے شیشے کالے تھے لیکن گاڑی گلی محلے ہی کی سڑکوں پر تھی ،جب کوئی شخص دائیں بائیں آجاتا تو میں گاڑی تھوڑی آگے لے جاتا نیز ایک دفعہ جب ہم گاڑی میں ملے تھے تو اسے حیض بھی تھے ۔تو اب  اس صورت میں خلوت صحیحہ ہوگئی کیا؟اس کے بارے میں میں نے  کراچی سے فتوی لیا تھا اس میں مفتی صاحب نے جواب دیا تھا کے اس صورت میں خلوت صحیحہ نہیں ہوئی  ۔ لیکن شیطان میرے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کے اس میں میں نے کالے شیشیے کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ اور کبھی یہ وسوسہ ڈالتا ہے کے گاڑی میں لوگ  ہمبستری    بھی کرلیتے ہیں، اور کبھی کیا اور کبھی کیا اس طرح کے وسوسے بہت پریشان کرتے ہیں۔ لیکن ہم جس طرح ملے تھے تو وہ جگہ ہمبستری کے لے ٹھیک نہیں تھی اور دوسرا ہم جس طرح بیٹھے تھے وہ بھی ہمبستری کے لائق نہیں تھا کیونکہ میں ایک سیٹ میں تھا اور وہ دوسرے سیٹ میں تھی۔

                           ایک تو مجھے یہ بتائیں کہ گاڑی میں ملنا خلوت صحیحہ کے قائم مقام  ہے کے نہیں اور دوسرا یہ کہ اوپر جو بھی صورت حال لکھی ہے اس کے مطابق طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کتنی واقع ہوئی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ کے مطابق  جب آپ نے نکاح کے بعد رخصتی  سے پہلے بیوی کو   کسی سے بھی بات کرنے پر  طلاق کو معلق کیا، اور بیوی نے رخصتی اور خلوتِ صحیحہ سے پہلے  کسی سے بھی بات کرلی تو  چونکہ یہ الفاظ عام تھے لہٰذا جب آپ کی منکوحہ نے کسی سے بھی فون پر بات کی تو صرف  ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے،  اس صورت میں اگر آپ اسی لڑکی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں از سرِ نو نکاح کرنا ہوگا۔اور آئندہ آپ کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ،لہٰذا ایسے جملے سوچ سمجھ کر ادا کریں!

۲۔خلوتِ  صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ایسی جگہ میں تنہا جمع ہوں جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو۔صورت مسئولہ کے  مطابق چونکہ ایسی تنہائی میسر نہیں آئی لہٰذا گاڑی میں ملنا خلوت صحیحہ کے قائمقام نہیں ہے ، طلاق کا حکم وہی ہے جو اوپر لکھا جاچکا ۔

حوالہ جات

فی الفتاوی الھندیۃ:"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثًا قبل الدخول بها وقعن عليها، فإن فرق الطلاق بانت بالأولى، ولم تقع الثانية والثالثة". (الفتاوی الھندیۃ:1/373)

فی الفتاوی الھندیۃ: وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار ،فأنت طالق.(الفتاوی الھندیۃ:1/420)

قال صاحب الھدایۃ:وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط ،مثل أن يقول لامرأته ؛إن دخلت الدار فأنت طالق ، وهذا بالاتفاق؛ لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط ،فيصح يمينا أو إيقاعا.(الھدایۃ :1/244)

                                                                        وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ 🙁 والخلوة ) مبتدأ خبره قوله الآتي: كالوطء ( بلا مانع حسي ) كمرض لأحدهما يمنع الوطء ( وطبعي ) كوجود ثالث عاقل، ذكره ابن الكمال وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل ( وشرعي ) كإحرام لفرض أو نفل"

(الدر المختار شرح تنوير الأبصار (3 / 114):

و فی الفتاوی الھندیہ:وَالْخَلْوَةُ الصَّحِيحَةُ أَنْ يَجْتَمِعَا فِي مَكَان لَيْسَ هُنَاكَ مَانِعٌ يَمْنَعُهُ مِنْ الْوَطْءِ حِسًّا أَوْ شَرْعًا أَوْ طَبْعًا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ". (الفتاوى الهندية: (7 / 150

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

30ربیع الاول1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب