021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایمان کی تعریف اور حقیقت
74396ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

ایمان کی تعریف کیا ہے؟ کیا اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کا نام ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایمان کی تعریف کتب ِ فقہ اور عقائد میں یوں کی گئی ہے:

 ھو التصدیق بما علم بالضرورۃ مجئي الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم بہ إجمالا فیما علم إجمالا وتفصیلاً فیما علم تفصیلاً۔

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کااللہ تعالیٰ کی طرف سے جن احکام کالانا ضروری وبدیہی ہو،ان سب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام اجمالا بیان فرمائے ان میں اجمالاً اور جو احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیلا بیان فرمائے ان میں  تفصیلاً تصدیق کرنا۔‘‘

اس تعریف میں لفظ تصدیق سے محض جاننا یا صحیح سمجھنا مراد نہیں،اس لیے کہ تصدیق باعتبارِ لغت اگرچہ محض دل سے جاننے یا صحیح سمجھنے کو ہی کہا جاتا ہے،لیکن شرعی لحاظ سے تصدیق کے مفہوم میں تین چیزیں شامل ہیں:

۱۔معرفت (یعنی جاننا، جس کی ضد جہالت ہے۔)

۲۔اذعان( یعنی دل سےصحیح اوریقینی سمجھنا،جس کی ضد شک اور تکذیب ہے۔)

۳۔انقیاد و استسلام(دل سے ماننااورقبول کرنا یعنی اطاعت وپیروی کو ضروری سمجھنا، جس کی ضد کفر اور انکار ہے۔)

گویا ایمان کی حقیقت اگرچہ محض دل سے کسی چیز کو صحیح اور یقینی سمجھنا ہی ہے،لیکن شریعت نے ایمان کے تحقق و ثبوت کے لیے معرفت واذعان (جاننے اور صحیح سمجھنے) کے ساتھ انقیاد و تسلیم (دل سےماننے وقبول کرنے) کو بھی شرط قرار دیا ہے۔ حاصل یہ کہ ایمان کے ثبوت کے لیے صرف تصدیق قلبی(علم ویقین)کافی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ انقیاد و تسلیم (دل سے واجب الاطاعت ولازمی ماننا)

بھی ضروری ہے۔

معروف محقق اور فقیہ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ردالمحتار باب المرتد میں تصدیق کا یہی مطلب لکھا ہے کہ تصدیق کا معنی اور مطلب ’’دل سے قبول کرنا اور یقین کرنا ہے۔‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 221)

(قوله هو تصديق إلخ) معنى التصديق قبول القلب، وإذعانه

لیکن علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الملہم شرح صحیح مسلم میں اس پر تفصیلی اور مدلل بحث کی ہے،جس میں انہوں نے یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ تصدیق بمعنی علم ویقین ، تصدیق وایمان کی لغوی حقیقت ہے، شرعی طور پر ایمان وتصدیق کے تحقق کے لیے علم یقین کے ساتھ ایک کلام نفسی بھی ضروری ہے، جس کا حاصل وہی انقیاد واستسلام ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔

پھر انقیاد اور استسلام بھی چونکہ ایک امر باطن اور پوشیدہ چیز ہے جس کا تعلق دل سے ہے،اس لیے شریعت نے ظاہری طور پر ایمان کے معتبر ہونے کے لیے تحقق وثبوت انقیاد کے لیے کسی قول (اقرار)یا فعل کا انقیاد کی دلیل اور علامت کے طور پر پایا جانا بھی لازمی اور ضروری قراردیا ہے۔ فقہائِے کرام نے انقیاد کی دو علامتیں بیان فرمائی ہیں،جن میں سے کم از کم کسی ایک کاپایاجانا ضروری ہے:

(۱)پہلی علامت یہ ہے کہ دین اسلام کا اقرار  کرے اور اسکے ساتھ اپنے سابق باطل مذہب اور فرقہ سے یا اس کے عقائد ِ باطلہ سے صراحۃً براء ت کا اظہار و اعلان بھی کرے۔

(۲) انقیاد واستسلام کی دوسری علامت یہ ہےکہ ایمان لانےوالامسلمانوں کے مخصوص اعمال ادا کرنا شروع کرے۔مثلاً با جماعت نماز پڑھنا شروع کرے یا مسجد ِ شرعی میں اذان دے یا مناسک ِ حج ادا کرے۔ حاصل یہ ہے کہ اظہار اسلام اس طور پر ہو کہ ہر شخص یہ سمجھے کہ اب یہ شخص اپنا سابق دین چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ دل سے تسلیم کرنے اور ماننے کی ظاہری علامات کا شرط ہونا نو مسلم کے لیے ہے۔ جو شخص نسلاً مسلمان ہو اس کا مسلمانوں کی جماعت میں سے ہونا ہی اس کے لیے دلیل انقیاد کے قائم مقام ہے۔

درِمختاراورردالمحتارباب المرتد میں اس مقام کی تفصیلی بحث مذکورہے،جس کاحاصل یہ ہے کہ انقیاد ہونے یا نہ ہونے کا مدار عرف پر ہے،لہٰذا کسی کافر کو اس وقت تک مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا،جب تک وہ اظہارِایمان واسلام اس طور پر نہ کردے،جس سے ہر شخص یہ سمجھنے لگے کہ اب یہ اپنا سابق مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو چکا ہے۔

لہٰذا اگر کوئی کافر محض سیاسی بیان کے طور پر یا محض اداکاری اور فن کاری کے طور پر ذرائع ابلاغ میں یا کسی سیاسی جلسہ یا کسی فلم یا ڈرامہ میں اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرےتومحض اس اقرار سے اس کو مسلمان نہیں قرار دیا جا سکتا۔

نیزظاہری طورپردلیل وعلامت ِ قبول وانقیادپائےجانےکےعلاوہ ایمان کےمعتبرہونےکےلیےایمان کےمنافی چیزوں سےاجتناب بھی ضروری ہے،مثلاً:

(۱)جان بوجھ کر زبان پر کلمۂ کفر نہ لائے۔

(۲)اپنے قول یا فعل سے دین کی بے وقعتی نہ کرے مثلاً: دین کا مذاق اڑانا وغیرہ ۔

(۳)ایسے قول یا فعل کا ارتکاب بھی نہ کرے جو دین کی بے وقعتی یا انکار کی دلیل ہو، مثلاً: بتوں کو سجدہ کرنا یا گلے میں زنا ڈالنا یا اس کے علاوہ کفار کا کوئی مذہبی شعار اختیار کرنا۔

(۴)تحقق ایمان کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ کسی ایک بھی قطعی حکم(یعنی جوقرآن و حدیث سے بلا شبہ ثابت ہو)کاانکاریاقطعی بدیہی حکم(ایسا قطعی جس سے ہر عام و خاص واقف ہو)کا انکار یا خلاف ظاہر تاویل بھی نہ پائی جائے۔ مثلاً ختم نبوت کا انکار یا تاویل کرنا۔(ملخص ازباب المرتدازردالمحتار: 6/343)

لہٰذا اگر کوئی کافر ظاہری انقیاد کے ساتھ ساتھ ایمان کے منافی ان باتوں میں سے کسی ایک کا بھی مرتکب ہو تو بھی اس کا ایمان معتبر نہ ہو گا، بلکہ وہ حسب ِ سابق کافر ہی رہے گا اور اگر ایمان لانے کے بعد ان کا ارتکاب کرے گا تو پہلی تین صورتوں میں مرتد اور آخری صورت میں زندیق کہلائےگا۔

حوالہ جات
فتح الملہم:( 1/437)
التصدیق علی التحقیق کلام النفس ولکن لا یثبت إلا مع العلم الخ۔
قال ابن الہمام وظاھر عبارۃ الاشعری فی ھذا السیاق أن التصدیق کلام للنفس مشروط بالمعرفۃ، یلزم من عدمہا عدمہ، ویحتمل أن الایمان ھو المجموع من المعرفۃ والکلام النفسی فیکون کل منھما رکنا من الایمان، فلا بد فی تحقیق الإیمان علی کلا الاحتمالین من المعرفۃ أعنی إدراک مطابقۃ دعوی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم للواقع، ومن أمر آخر ھو الاستسلام الباطن والانقیاد بقبول الأوامر والنواھی المستلزم للإجلال وعدم الاستخفاف (مع التبری من الکفر الذی کان فیہ) وھذا الاستسلام الباطن ھو المراد بکلام النفس، وبہ عبر المصنف (أی الغزالی) فی کلامہ علی الإیمان والإسلام، وإنما قلنا أنہ لا بدمع المعرفۃ من الآمر الأخر وھو الاستلام الباطن لما تقدم من ثبوت مجرّد تلک المعرفۃ مع قیام الکفر الخ قال العلامۃ الزبیدي في شرح الإحیاء: الأظہر أن التصدیق قول للنفس غیر المعرفۃ لأن المفہوم من التصدیق لغۃ ھو نسبۃ الصدق إلی القائل، وھو فعل والمعرفۃ لیست فعلًا إنما ھی من قبیل الکیف المقابل لمقولۃ الفعل فلزم خروج کل من الانقیاد الذی ھو الاستسلام و من المعرفۃ عن مفہوم التصدیق لغۃً مع ثبوت اعتبارھما شرعاً فی الإیمان، وثبوت اعتبارھما بہذا الوجہ علی أنہا جزء ان لمفہومہ شرعًا أو شرطان لاعتبارہ لإجراء أحکامہ شرعًا، والثانی وھو الأوجہ ،اذفی الأول یلزم نقل الإیمان من المعنی اللغوی إلی معنی آخر شرعی، وھو بلا دلیل یقتضی وقوعہ منتف لانہ خلاف الأصل فلا یصار إلیہ إلا بدلیل ولا دلیل بل قد کثر فی الکتاب والسنۃ طلبہ من العرب، وأجاب من أجاب إلیہ دون استفسار عن معناہ، وإن وقع استفسار منھم فإنما ھو عن متعلق الإیمان وعدم تحققق الایمان بدون المعرفۃ والاستسلام لا یستلزم جزئیۃ ھما لمفھومہ شرعًا لجواز أن یکونا شرطین للایمان شرعًا وحقیقتہ التصدیق بالأمور الخاصۃ بالمعنی اللغوی وإذا تقرر ذلک ظہر ثبوت التصدیق لغۃ بدونھما مع الکفر الذری ھو ضد الایمان اھـ۔
وناقش فی بعضہ العلامۃ الآلوسی رحمہ اﷲ فقال بعد کلام: وحاصل ذلک منع حصول التصدیق للمعاند فإنہ ضد الإنکار، وإنما الحاصل لہ المعرفۃ التی ھی ضد النکارۃ والجہالۃ، وقد اتفقوا علی أن تلک المعرفۃ خارجۃ عن التصدیق اللغوی وھو المعتبر فی الإیمان۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 229)
والحاصل: أن الذي يجب التعويل عليه أنه إن جهل يستفسر عنه، وإن علم كما في زماننا، فالأمر ظاهر، وهذا وجه ما يأتي عن قارئ الهداية (قوله لأن التلفظ به صار علامة على الإسلام إلخ) أفاد بقوله صار إلى أن ما كان في زمن الإمام محمد تغير لأنهم في زمنه ما كانوا يمتنعون عن النطق بها فلم تكن علامة الإسلام فلذا شرط معها التبري. أما في زمن قارئ الهداية فقد صارت علامة الإسلام لأنه لا يأتي بها إلا المسلم كما في زماننا هذا ولذا نقل في البحر أول كتاب الجهاد كلام قارئ الهداية ثم أعقبه بقوله وهذا يجب المصير إليه في ديار مصر بالقاهرة لأنه لا يسمع من أهل الكتاب فيها الشهادتان، ولذا قيده محمد بالعراق اهـ ومثله في شرح العلامة المقدسي. ونقل أيضا في الدر المنتقى كلام قارئ الهداية ثم قال: وبه أفتى أحمد بن كمال باشا.
وفي شرح الملتقى لعبد الرحمن أفندي داماد: وأفتى البعض في ديارنا بإسلامه من غير تبر وهو المعمول به اهـ فليحفظ اهـ وقد أسمعناك آنفا ما فيه الكفاية.
 مطلب الإسلام يكون بالفعل كالصلاة بجماعة [خاتمة] اعلم أن الإسلام يكون بالفعل أيضا كالصلاة بجماعة أو الإقرار بها أو الأذان في بعض المساجد أو الحج وشهود المناسك لا الصلاة وحده ومجرد الإحرام بحر وقدم الشارح ذلك نظما في أول كتاب الصلاة، وقدمنا الكلام عليه مستوفى وذكرنا هناك أنه لا فرق في الإسلام بالفعل بين العيسوي وغيره، والمراد أنه دليل الإسلام فيحكم على فاعل ذلك به، وإلا فحقيقة الإسلام المنجية في الآخرة لا بد فيها من التصديق الجازم مع الإقرار بالشهادتين أو بدونه على الخلاف المار۔
 
 

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲ربیع الثانی۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب