021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مذہب کی جبری تبدیلی
74397ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

اکراہ وجبر سے کیا مراد ہے؟مذہب کی جبری تبدیلی سے شریعت اسلامیہ میں کیا مراد ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت اسلامیہ نے مذہب کی جبری تبدیلی کے لیے اکراہ فی الدین کی اصطلاح اور تعبیر اختیار فرمائی ہے اور اکراہ کراہت سے ہے، اور شریعت میں اکراہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی انسان کو کسی ناپسندیدہ وناحق کام پر آمادہ کرنے کے لیے کسی ایسے عمل کی دھمکی دینا جس سے اس کا اختیار سلب ہوجائے یا کم از کم رضامندی  فوت ہوجائے،اور اکراہ کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

۱۔ اکراہ ملجی: جس میں قتل ،کسی عضو کے تلف،ناقابل تحمل شدید مارپیٹ کی دھمکی کے ذریعہ کسی کو مجبور کیا جائے۔

۲۔ اکراہ غیر ملجی :جس میں جان یا عضو کے تلف کا خطرہ تو نہ ہو،لیکن کسی قدر مار پیٹ یا یااپنی یا اقارب کی طویل قید وبند یا کوئی بھی ایسا رویہ یا گفتار جس سے ایسا شخص اپنے آپ کو عموما غیرمعمولی ذہنی یا جسمانی اذیت سے دوچار ومجبور سمجھے،پائی جائے۔(در مختار)مزید تفصیل کتب اصول فقہ وفقہ میں موجود ہے۔

لہذا شریعت اسلامیہ میں مذہب کی جبری تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو ناگوار اور ناپسندیدہ عمل مثلا طاقت کے زور پر یا جان ومال کے کلی یامعتد بہ جزوی نقصان  یا شدید زود وکوب یا  طویل حبس کے تخویف ودھمکی کے ذریعہ سےیا اشراف کے حق میں نامناسب رویہ کے ذریعہ سے اسلام لانے پر مجبور کیا جائے۔

 محققین مفسرین نے واضح کیا ہے کہ ایمان واسلام کے قبول کرنے پر اکراہ وجبر ظاہری لحاظ سے جبر واکراہ تو بن سکتا ہے،لیکن حقیقت کے اعتبار سے دو وجہ سے یہ شرعااکراہ نہیں قرار دیا جاسکتا:

۱۔ اکراہ کا تعلق ظاہری اعضاء کےحد تک ہے،جبکہ ایمان کا تعلق ظاہری اعضاء سے نہیں،بلکہ قلب سے ہے۔

۲۔اسلام انسان کا فطری مذہب ہے اور اس میں انسان کے لیے سراسر خیر ہی ہے، جبکہ اکراہ ناحق وناپسندیدہ چیز کے بارے  میں ہی شرعا معتبر ہے۔

حوالہ جات
تفسير الألوسي = روح المعاني (2/ 14)
بل هي جملة مستأنفة جيء بها إثر بيان دلائل التوحيد للإيذان بأنه لا يتصور الإكراه في الدين لأنه في الحقيقة إلزام الغير فعلا لا يرى فيه خيرا يحمله عليه والدين خير كله، والجملة على هذا خبر باعتبار الحقيقة ونفس الأمر وأما ما يظهر بخلافه فليس إكراها حقيقيا، وجوز أن تكون إخبارا في معنى النهي أي لا تكرهوا في الدين وتجبروا عليه وهو حينئذ إما عام منسوخ بقوله تعالى: جاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ [التوبة: 73، التحريم: 9] وهو المحكي عن ابن مسعود. وابن زيد. وسليمان بن موسى، أو مخصوص بأهل الكتاب الذين قبلوا الجزية- وهو المحكي عن الحسن، وقتادة. والضحاك- وفي سبب النزول ما يؤيده
فقد أخرج ابن جرير عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما «أن رجلا من الأنصار من بني سالم بن عوف يقال له الحصين كان له ابنان نصرانيان وكان هو رجلا مسلما فقال للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم: ألا أستكرههما فإنهما قد أبيا إلا النصرانية؟ فأنزل الله تعالى فيه ذلك» .
روح البيان (3/ 387)
قال الفقهاء الكافر إذا اكره على الإسلام فأجرى كلمة الإسلام على لسانه يكون مسلما فاذا عاد الى الكفر لا يقتل ويجبر على الإسلام كما فى هدية المهديين للمولى أخي چلبى
الدر المصون في علوم الكتاب المكنون (2/ 546)
ومعنى الإِكراه نسبتُهم إلى كراهةِ الإِسلام. قال الزجاجُ: «لا تَنْسُبوا إلى الكراهةِ مَنْ أسلم مُكْرَهاً» .يقال: «أَكْفَره» نَسَبَه إلى الكفرِ،
اللباب في علوم الكتاب (4/ 327)
ومعنى الإكراه نسبتهم إلى كراهة الإسلام. قال الزجاج: «لا تنسبوا إلى الكراهة من أسلم مكرها» ، يقال: «أكفره» نسبه إلى الكفر؛

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲ربیع الثانی۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب