021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
علاقہ کلانچ کے مرکزی جگہ (بل ہڈوکی) میں جمعہ قائم کرنے کا حکم
74420نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

بلوچستان کے ضلع گوادرمیں ایک علاقہ ہے جس کانام کلانچ ہے،کلانچ ایک جنگلی علاقہ ہے،کلانچ نہ شہر ہےنہ مضافات شہر ہے،بلکہ گوادرشہر سے 80 کلومیٹرکے فاصلہ پر ہے،کلانچ میں نہ عدالت ہے،نہ قاضی ہے،نہ پولیس اسٹیشن ہے،نہ بجلی کی سہولیات ہیں اورنہ ہی دیگرضروریاتِ زندگی اورسہولیات کا سامان میسرہے۔

کلانچ کے آدھے حصے میں ذکری فرقے والے اورآدھے حصے میں مسلمان آباد ہیں،اس آدھے حصے میں تقریباًمسلمانوں کی تیس کے قریب چھوٹی چھوٹی بستیاں آبادہیں،ہر بستی  بیس سے تیس گھروں پر مشتمل ہے ،اورکچھ بستیاں چالیس سے پچاس گھروں پر مشتمل ہیں ،ہربستی میں الگ مسجد ہے،ہرایک بستی دوسری بستی سےچار،پانچ ،آٹھ یا دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اورکچھ بستیاں ایسی بھی ہیں جو دوسری بستی سے پندرہ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، کلانچ میں ایک بستی ہے جو" بل ھڈوکی "کے نام سے ہے،جو تمام بستیوں کے درمیان میں ہے،بل ھڈوکی میں تقریباً اسی گھرانے ہیں اورنمازیوں کی تعداد بیس سے زائد نہیں ہوگی تقریباً آج سے دس سال پہلے کراچی سے ایک عالمِ دین نے وہاں جاکر مقامی ساتھیوں کےساتھ مل کر وہاں جمعہ کی نماز قائم کی،پھر ایسا ہوا کہ قطر سے ایک شخص نے اس عالم سے فون پر رابطہ کیا کہ کلانچ میں جتنی مساجد ہیں آپ وہاں امام مقررکریں تنخواہ میں دوں گا،اب اس عالم ِدین نے کلانچ میں ایک نائب مقررکیاکہ آپ اس کوچلائیں ،اس نائب نے بل ھڈوکی کو مرکز بنایا اوروہاں سے تمام انتظامات چلانے لگے اورایک کابینہ شوری کے نام سے تشکیل دی اورسارے کام شوری کے فیصلے سے ہوتےتھے ،اب شوری نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام ائمہ مساجد پورے ہفتے کی کارگزاری لےکر جمعہ کے دن مرکزآجائیں اورمقتدیوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کا کہا نماز ِجمعہ کے بعد پورے ہفتے کی کاگزاری پیش کرناطے پایا،یہ بھی طے پایا کہ تمام ائمہ مساجد کی تنخواہ جمعہ کے دن ان کومرکز میں دی جائے گی ،اس طرح دوردرازسے آنے والے لوگوں اورائمہ مساجد کی وجہ سے جمعہ کے دن مسجد نمازیوں سے بھرجایا کرتی تھی اوریہ سلسلہ یوں ہی چلتارہا،کچھ عرصہ بعدقطروالے شخص نے کچھ مسائل کی وجہ سے تنخواہ کا سلسلہ بند کردیا ،اب جتنے بھی ائمہ مساجد تھے وہ مقامی نہیں تھے بلکہ باہر کے تھے تنخواہ بند ہونے کی وجہ سے وہ واپس چلے گئے ،اسی طرح کچھ مقامی امام تھے،تنخواہ بند ہونے کے بعدرفتہ رفتہ جمعہ کے لیے آناچھوڑدیا اوریہ کہنے لگے کہ یہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی،علماء کرام اورمفتیان کرام سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتلایاکہ اس طرح کی جگہوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاسکتااورکہا کہ یہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتی ، اب جس عالم دین نے جمعہ قائم کیا تھا اس سے دریافت کیاگیا کہ جب شرائط پوری نہیں تھیں تو آپ نے کس بنیاد پر جمعہ قائم کیا تھا؟ تو اس نے جواب میں یہ کہا کہ ہم نے جمعہ اس لیے قائم کیا کہ یہ جنگل کے لوگ ہیں،یہ سب لوگ جب ایک جگہ جمع ہوجائیں گے اورعلماء کے بیانات سنیں گے تو اس سے ان کی دینداری میں اضافہ ہوگااورانہیں کچھ سیکھنے کو ملے گا ہمارا جمعہ قائم کرنےکا بس یہی مقصد تھا ،لہذا جمعہ کو بند نہ کیا جائے بلکہ ترتیب برقراررکھی جائے۔

اب سوال یہ ہےکہ:

١۔ کیا ایسی جگہ جو نہ شہر ہے،نہ مضافاتِ شہر ہے،نہ وہاں عدالت ہے ،نہ ہی پولیس اسٹیشن ہے اورنہ ہی دیگرسہولیاتِ زندگی میسرہیں ،جیساکہ کہ کلانچ کا علاقہ ہے،کیا  اس طرح کی جگہوں میں جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

۲۔ ایسی جگہ جہاں جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں اوروہاں جمعہ قائم کیا گیاہوپھر وہاں جمعہ بند کیاجاسکتاہےیا نہیں؟

۳۔ اگرایسی جگہوں جمعہ کی بندش سے لوگوں میں اختلاف اورفتنے کا خوف اوراندیشہ ہوتو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

۴۔ مذکورہ بالاعلاقہ میں دس سال سے لوگ جمعہ ادا کررہے ہیں ،اب اگروہاں جمعہ بند کردیاجائے تو گزشتہ دس سال سے جمعہ کی پڑھی گئی نمازوں کا کیاحکم ہوگا؟

۵۔مذکورہ بالامسئلہ کے جواب میں مولاناصاحب نے کہا کہ میں نے جمعہ اس لیے قائم کیا تھا کہ لوگ دینی تعلیم سے آراستہ ہوں اوروعظ ونصیحت سے انہیں فائدہ ہو،کیاایسی صورتِ حال میں ایسی جگہ جمعہ قائم کرناجائزہے؟

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

بلوچستان کے ضلع گوادرمیں ایک علاقہ ہے جس کانام کلانچ ہے،کلانچ ایک جنگلی علاقہ ہے،کلانچ نہ شہر ہےنہ مضافات شہر ہے،بلکہ گوادرشہر سے 80 کلومیٹرکے فاصلہ پر ہے،کلانچ میں نہ عدالت ہے،نہ قاضی ہے،نہ پولیس اسٹیشن ہے،نہ بجلی کی سہولیات ہیں اورنہ ہی دیگرضروریاتِ زندگی اورسہولیات کا سامان میسرہے۔

کلانچ کے آدھے حصے میں ذکری فرقے والے اورآدھے حصے میں مسلمان آباد ہیں،اس آدھے حصے میں تقریباًمسلمانوں کی تیس کے قریب چھوٹی چھوٹی بستیاں آبادہیں،ہر بستی  بیس سے تیس گھروں پر مشتمل ہے ،اورکچھ بستیاں چالیس سے پچاس گھروں پر مشتمل ہیں ،ہربستی میں الگ مسجد ہے،ہرایک بستی دوسری بستی سےچار،پانچ ،آٹھ یا دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اورکچھ بستیاں ایسی بھی ہیں جو دوسری بستی سے پندرہ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، کلانچ میں ایک بستی ہے جو" بل ھڈوکی "کے نام سے ہے،جو تمام بستیوں کے درمیان میں ہے،بل ھڈوکی میں تقریباً اسی گھرانے ہیں اورنمازیوں کی تعداد بیس سے زائد نہیں ہوگی تقریباً آج سے دس سال پہلے کراچی سے ایک عالمِ دین نے وہاں جاکر مقامی ساتھیوں کےساتھ مل کر وہاں جمعہ کی نماز قائم کی،پھر ایسا ہوا کہ قطر سے ایک شخص نے اس عالم سے فون پر رابطہ کیا کہ کلانچ میں جتنی مساجد ہیں آپ وہاں امام مقررکریں تنخواہ میں دوں گا،اب اس عالم ِدین نے کلانچ میں ایک نائب مقررکیاکہ آپ اس کوچلائیں ،اس نائب نے بل ھڈوکی کو مرکز بنایا اوروہاں سے تمام انتظامات چلانے لگے اورایک کابینہ شوری کے نام سے تشکیل دی اورسارے کام شوری کے فیصلے سے ہوتےتھے ،اب شوری نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام ائمہ مساجد پورے ہفتے کی کارگزاری لےکر جمعہ کے دن مرکزآجائیں اورمقتدیوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کا کہا نماز ِجمعہ کے بعد پورے ہفتے کی کاگزاری پیش کرناطے پایا،یہ بھی طے پایا کہ تمام ائمہ مساجد کی تنخواہ جمعہ کے دن ان کومرکز میں دی جائے گی ،اس طرح دوردرازسے آنے والے لوگوں اورائمہ مساجد کی وجہ سے جمعہ کے دن مسجد نمازیوں سے بھرجایا کرتی تھی اوریہ سلسلہ یوں ہی چلتارہا،کچھ عرصہ بعدقطروالے شخص نے کچھ مسائل کی وجہ سے تنخواہ کا سلسلہ بند کردیا ،اب جتنے بھی ائمہ مساجد تھے وہ مقامی نہیں تھے بلکہ باہر کے تھے تنخواہ بند ہونے کی وجہ سے وہ واپس چلے گئے ،اسی طرح کچھ مقامی امام تھے،تنخواہ بند ہونے کے بعدرفتہ رفتہ جمعہ کے لیے آناچھوڑدیا اوریہ کہنے لگے کہ یہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی،علماء کرام اورمفتیان کرام سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتلایاکہ اس طرح کی جگہوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاسکتااورکہا کہ یہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتی ، اب جس عالم دین نے جمعہ قائم کیا تھا اس سے دریافت کیاگیا کہ جب شرائط پوری نہیں تھیں تو آپ نے کس بنیاد پر جمعہ قائم کیا تھا؟ تو اس نے جواب میں یہ کہا کہ ہم نے جمعہ اس لیے قائم کیا کہ یہ جنگل کے لوگ ہیں،یہ سب لوگ جب ایک جگہ جمع ہوجائیں گے اورعلماء کے بیانات سنیں گے تو اس سے ان کی دینداری میں اضافہ ہوگااورانہیں کچھ سیکھنے کو ملے گا ہمارا جمعہ قائم کرنےکا بس یہی مقصد تھا ،لہذا جمعہ کو بند نہ کیا جائے بلکہ ترتیب برقراررکھی جائے۔

اب سوال یہ ہےکہ:

١۔ کیا ایسی جگہ جو نہ شہر ہے،نہ مضافاتِ شہر ہے،نہ وہاں عدالت ہے ،نہ ہی پولیس اسٹیشن ہے اورنہ ہی دیگرسہولیاتِ زندگی میسرہیں ،جیساکہ کہ کلانچ کا علاقہ ہے،کیا  اس طرح کی جگہوں میں جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

۲۔ ایسی جگہ جہاں جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں اوروہاں جمعہ قائم کیا گیاہوپھر وہاں جمعہ بند کیاجاسکتاہےیا نہیں؟

۳۔ اگرایسی جگہوں جمعہ کی بندش سے لوگوں میں اختلاف اورفتنے کا خوف اوراندیشہ ہوتو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

۴۔ مذکورہ بالاعلاقہ میں دس سال سے لوگ جمعہ ادا کررہے ہیں ،اب اگروہاں جمعہ بند کردیاجائے تو گزشتہ دس سال سے جمعہ کی پڑھی گئی نمازوں کا کیاحکم ہوگا؟

۵۔مذکورہ بالامسئلہ کے جواب میں مولاناصاحب نے کہا کہ میں نے جمعہ اس لیے قائم کیا تھا کہ لوگ دینی تعلیم سے آراستہ ہوں اوروعظ ونصیحت سے انہیں فائدہ ہو،کیاایسی صورتِ حال میں ایسی جگہ جمعہ قائم کرناجائزہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     ١۔ جب یہ جگہ نہ شہر ہے، نہ فناءِ شہر ہے اورنہ ہی اس پر سائل کے ذکرکردہ حالات کی روشنی میں قریہ کبیرہ کی تعریف صادق آتی ہےتو پھر یہاں جمعہ قائم کرناکیسے صحیح ہوسکتاہے؟ حنفیہ رحمھم اللہ کے نزدیک یہاں جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے۔

    ۲۔حکمت اورمصلحت سے یہاں جمعہ بندکیاجائے۔

    ۳۔ اگرطویل مدت سے جمعہ قائم ہونے کی وجہ سے ختم کرنے یا روکنے میں فساد یا انتشار کا اندیشہ ہو تو ایسی سخت مجبوری کی صورت میں اگراس بستی میں کسی بھی امام کے نزدیک جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں اور اپنے علاقے کے حاکم (مجسٹریٹ) سے اجازت لے لی جائے تو ایسی جگہ میں عارضی طور پر جمعہ جاری رکھنا درست ہوجائے گا ۔مثلاًامام شافعی ؒکے مطابق درج ذیل شرائط کی پابندی ضروری ہے:

١۔وہ بستی دارالاقامۃہو (یعنی لوگوں کے گھر،مکان ہوں جھونپڑیاں نہ ہوں وغیرہ) امام بھی مقیم ہو

۲۔ظہر کا وقت ہو۔

۳۔جمعہ کی ایک جماعت ہو، اس سے پہلے یا بعد میں نہ ادا کیا جائے۔

۴۔جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے۔

۵۔دو خطبے ہوں جو حمد و صلوۃ، وصیۃ بالتقوی، مسلمانوں کے لئے دعا، اور قراءت قرآن پر مشتمل ہوں۔

٦۔امام سمیت کم ازکم اکتالیس یااس سے زائدبالغ مرد حضرات خطبے سمیت اول سے آخر تک نماز میں شریک ہوں۔

        واضح رہے کہ حاکم سے مراد ہر قسم کا افسر نہیں بلکہ وہ افسر مراد ہے جس کو کسی علاقے میں احکام نافذکرنے کا اور لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا اختیا ر حاصل ہو ،جیسے آج کل ضلعی ناظم ،ڈپٹی اور سیشن جج وغیرہ ،البتہ اس افسر کی موت یا تبدیلی کی صورت میں نئے افسر سےدوبارہ اجازت لینا ضروری ہوگا۔(مأخذہٗ تبویب دارالعلوم کراچی :  1586/68، 1007/54)

        ۴۔ اوپر ذکر کردہ تفصیل کی رو سےہمارے خیال کے مطابق مذکورہ گاؤں میں جمعہ قائم کرنا جائز نہیں تھا،  اس صورت میں اب تک پڑھی جانے والی جمعہ کی نمازوں کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  ان لوگوں نے کسی مستند عالمِ دین  سے پوچھ کر مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھنا شروع کی تھی اور  چاروں مذاہب میں سے کسی کے مطابق مثلاً فقہ شافعی کے مطابق   یہاں جمعہ پڑھنا جائز ہو سکتا ہو، توچونکہ طویل مدت کی نمازوں کی قضاء  کرنے میں حرج معلوم ہوتا ہے، اس لیے اگر  اب تک پڑھی ہوئی نمازوں کی قضاء نہ  کی جائے  تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔(کذا فی تبویب دارلعلوم کراچی: 1796/84)

        ۵۔اس مقصد کےلیے بھی جمعہ قائم کرناجائزنہیں،یہ مقصد درسِ قرآن درسِ حدیث اورمختلف مساجدمیں بڑے علماء کرام کو بلواکرتقریریں کروانے سے بھی حاصل کیاجاسکتاہے۔

حوالہ جات
وفی مصنف ابن أبي شيبة - ترقيم عوامة - (2 / 101)
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : لاَ جُمُعَةَ ، وَلاَ تَشْرِيقَ إِلاَّ فِي مِصْرٍ جَامِعٍ.
وفہ الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 148)
(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الاول: (المصر وهو .....وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض
يقدرعلى إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.....(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي.)
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق.
رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه .
رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي ا هـ فافهم  ،والرستاق القرى كما في القاموس
فى اعلاء السنن (8\16)
أن أمرالامام واذنه قاطع للنزاع فى المسائل المجثهد فيها واشتراط المصز مجتهد فيه الصحابة رضوان الله عليهم والائمة فاذا أمر الامام على القرية واذن له باقامة الجمعة بها صحت الجمعة بها عندنا لأجل هذا الاصل
وفيه أيضا (8\10)
أن الامير واوالى الذى شأنه القدرة على تنفيذ الحكام واقامة الحدود
الموسوعة الفقهية الكويتية - (ج 11 / ص 272)
" المشقّة تجلب التّيسير " والأصل فيها قوله تعالى : { يُريدُ اللّهُ بكم اليُسْرَ ولا يُريدُ بكم العُسْر } وقوله تعالى : { وما جَعَلَ عليكم في الدّينِ من حَرَجٍ } ، ولذلك أجمع أهل العلم على أنّ من لا يطيق القيام ، وتعذّر عليه قبل الصّلاة أو أثناءها حقيقةً أو حكماً ، بأن خاف زيادة مرض ، أو بطء برئه ، أو دوران رأسه ، أو وجد لقيامه ألماً شديداً ونحوه ، له أن يصلّي جالساً ، وإن لم يستطع أومأ مستلقياً ، « لقول النّبيّ صلى الله عليه وسلم لعمران بن حصين : صلّ قائماً ، فإن لم تستطع فقاعداً ، فإن لم تستطع فعلى جَنْب » زاد النّسائيّ : « فإن لم تستطع فمستلقياً » . ويزاد في النّافلة : أنّ له التّحوّل من القيام إلى القعود بلا عذر  
 وحديث أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "يسروا ولا تعسروا، وبشروا ولا تنفروا". متفق عليه[رواه البخاري في كتاب العلم، باب ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا 1/ 38 (69)، ومسلم في كتاب الجهاد والسير، باب في الأمر بالتيسير وترك التنفير (1734).
الحكمة في قضاء الصوم دون الصلاةلأن الصلاة تتكرر ، والقاعدة أن المشقة تجلب التيسيروأنه إذا ضاق الأمر اتسع ، وإذا اتسع ضاق وأما الصيام فإنه لا يتكرر ، ولذلك تؤمر الحائض والنفساء بقضاء الصيام دون الصلاة . إتحاف الكرام بشرح عمدة الأحكام - (ج 7 / ص 1)
والحرج والمشقّة الّتي تلحق المكلّف تكون سبباً لإسقاط بعض التّكاليف عمّن تلحقهم المشقّة وذلك تفضّلًا من اللّه تعالى ورحمةً بهم ، وذلك كإسقاط العبادات والعقوبات عن المجنون ، وإسقاط بعض العبادات بالنّسبة لأصحاب الأعذار كالمرضى والمسافرين لما ينالهم من مشقّة . وقد فصّل الفقهاء المشاقّ وأنواعها ، وبيّنوا لكلّ عبادة مرتبةً معيّنةً من مشاقّها المؤثّرة في إسقاطها ، وأدرجوا ذلك تحت قاعدة : المشقّة تجلب التّيسير ، أخذاً من قوله تعالى : { يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ } ، وقوله تعالى : { وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ } .﴿ الموسوعة الفقهية الكويتية ج 19 / ص 27﴾
وفی الموسوعة الفقهية الكويتيةٲیضاً- (ج 29 / ص 202)
قال ابن نجيم : المشقّة والحرج إنّما يعتبران في موضع لا نصّ فيه ، وأمّا مع النّصّ بخلافه فلا .
وفی مجلة مجمع الفقه الإسلامي - (ج 8 / ص 359)
يقول القرافي في إحدى قواعده: " كل مأمور يشق على العباد فعله، سقط الأمر به، وكل منهي شق عليهم اجتنابه سقط النهي عنه " وجاء في كلام خليل الفقيه المالكي: " وعفي عما يعسر " .
كما جاء في كلام ابن نجيم النظار الحنفي ، في مساق التنويه بالقاعدة الكلية الآنفة الذكر : " قال العلماء : يتخرج على هذه القاعدة جميع رخص الشرع وتخفيفاته.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

4/3/1443ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب