021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تحریرا تین طلاق دینے کے بعد ایک ساتھ رہنے کا حکم
74423طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

سوال کا خلاصہ:

2014 میں محمد عدنان شیخ کا نکاح ریما سے ہوا، ان کے تین بچے ہیں، تینوں بیٹے ہیں۔ ان دونوں میاں بیوی کی آپس میں نا اتفاقی چلتی رہی جس نے 2020 میں شدت اختیار کی، ریما اپنے تینوں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی۔ نا اتفاقی بڑھنے پر ریما نے تینوں بچے شوہر کے پاس واپس بھیج دئیے۔ شوہر نے غصے میں کہا کہ میں طلاق دوں گا اور معاملات حل نہ ہونے کی صورت میں طلاق دینے کا ارادہ کرلیا، وکیل سے رجوع کیا، کاغذات تیار کیے اور قانونی طریقۂ کار کے مطابق کاغذات بیوی کو بھیج دیئے۔ بیوی نے کاغذات دیکھے بغیر واپس کردئیے اور وصول کرنے سے انکار کیا۔ پھر بیوی نے شوہر سے بچوں کا مطالبہ کیا، شوہر نے بتایا کہ عدالت آجائیں، ہم بچوں کو وہاں لے کر آئیں گے۔ طلاق کے لیے کاغذات جو کاغذات تیار کیے تھے وہ جون 2020 اور جولائی 2020 کا پہلا عشرہ تھا، اسی دوران ریما کی طبیعت خراب ہوگئی، ڈاکٹر نے آپریشن کی ہدایت کی، آپریشن ہوا تو مردہ بچی کی پیدائش ہوئی۔ محمد عدنان شیخ نے بچی کی صورت بھی نہیں دیکھی اور بیوی کی فیملی نے اس کی تدفین کردی۔ پھر ریما کے اہل و عیال نے کورٹ سے رجوع کیا، ان کی صلح کرادی، موقع پر موجود وکیل اور رشتہ داروں نے کہا کہ اگر ریما نے طلاق نامہ وصول نہیں کیا تو طلاق نہیں ہوئی اور اگر ساتھ رہنے لگے تو کوئی مشکل نہیں۔ لہٰذا وہ ساتھ رہنے لگے۔  آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

عدنان نے طلاق کا جو طریقۂ کار اپنایا وہ شرعا کس حد تک درست ہے؟ (طلاق کے کاغذات منسلک ہیں)۔ طلاق کے وقت بیوی حاملہ تھی، اس وقت طلاق دینا درست تھا یا نہیں؟ اب اس رشتہ کی موجودہ شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر شرعا یہ رشتہ ختم ہوگیا ہے تو ابھی تک جو یہ دونوں ساتھ رہے ہیں، اس سب کا ازالہ بتادیں، اور جن لوگوں نے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا تھا وہ کس تک ذمہ دار ہیں؟ نیز رشتہ ختم ہونے کی صورت میں اب دوبارہ رشتہ قائم کرنے کے طریقہ کی راہنمائی فرمائیں۔  میاں بیوی کی نا اتفاقی کے معاملات میں شدت کی وجہ سے پیٹ میں موجود بچی کی جان کو نقصان ہوا اور وہ مردہ پیدا ہوئی۔ اس معاملے کی ذمہ داری دونوں پر کس حد تک آئے گی؟ عدنان قانونی تقاضا  کو  دیکھتے ہوئے اس بچی کی تدفین میں شریک نہ ہوسکا، اس میں شرعی اعتبار سے کردار کیا ہونا چاہیے تھا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

منسلکہ طلاق نامہ کے مطابق محمد عدنان شیخ نے 30 جون 2020 کو اپنی بیوی ریما ناز کو تین صریح منجز طلاقیں دی ہیں۔ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا سخت حرام اور ناجائز ہے، تاہم اگر کوئی شخص ایسا کرے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں تین طلاقیں دینے کی وجہ سے محمد عدنان شیخ اور ریما ناز کا نکاح ختم ہوگیا تھا اور ان دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی تھی جس کے بعد رجوع یا دوبارہ نکاح جائز نہیں ہوتا۔ طلاقِ منجَّز واقع ہونے کے لیے بیوی کا طلاق نامہ وصول کرنا ضروری نہیں۔ نیزحالتِ حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔  

مذکورہ صورت میں محمد عدنان شیخ اور ریما عمر کا تین طلاقیں واقع ہوجانے کے باوجود آپس میں اکٹھے رہنا سخت ناجائز اور حرام ہے، ان دونوں پر لازم ہے کہ فورا ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ اب تک جو اکٹھے رہے ہیں، اس کی وجہ سے یہ دونوں اور جن لوگوں نے انہیں ایک ساتھ رہنے کا مشورہ دیا، سب کے سب سخت گناہ گار ہوئے ہیں، ان سب پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسے سنگین گناہ کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم کرلیں۔

اب اگرمحمد عدنان شیخ اور ریما ناز دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صرف ایک صورت ہے،اور وہ یہ کہ عدت کے بعد مطلقہ کا کسی دوسرے شخص  سے  شرعی گواہوں کی موجودگی میں مہر کے  عوض باقاعدہ نکاح ہوجائے، دوسرا شوہر ہمبستری کے بعد اپنی مرضی سےاس کو طلاق دے یا ہمبستری کے بعد اس کا انتقال ہوجائے اور اس دوسرےشوہرکی عدت گزرجائے، تو اس کے بعد یہ دونوں باہم رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئےمہر پر دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں کے درمیان نکاح ممکن نہیں ۔

جہاں تک محمد عدنان شیخ سے طلاق ملنے کے بعد ریما ناز کی عدت کا تعلق ہے تو چونکہ سائل کی وضاحت کے مطابق طلاق کے وقت وہ حاملہ تھی، اور حاملہ عورت کی عدت بچے کی پیدائش سے مکمل ہوجاتی ہے؛ اس لیے تین طلاقوں کے بعد جب ریما ناز کی مردہ بچی پیدا ہوئی تو اسی وقت اس کی عدتِ طلاق مکمل ہوگئی تھی۔ لیکن سوال نامہ کے مطابق اس کے بعد کورٹ میں ان کی صلح کروادی گئی اور وہاں موجود وکیل اور رشتہ داروں نے بتایا کہ اگر ریما نے طلاق نامہ وصول نہیں کیا تو طلاق نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے وہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی طرح اکٹھے رہنے لگے، لہٰذا اگر وہ دونوں واقعتا سمجھ رہے تھے کہ یہ تین طلاقیں نہیں ہوئیں اور ہمارے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت نہیں ہوئی تو اب ریما ناز پر محمد عدنان شیخ کے ساتھ آخری مرتبہ ہمبستری کے بعد سے عدتِ وطی واجب ہوگی جوکہ تین حیض ہیں، لہٰذا آخری مرتبہ ہمبستری کے بعد جب اس کی تین ماہواریاں گزر جائیں تو اس کے بعدوہ کسی اور شخص سے نکاح کرسکے گی۔ لیکن اگر وہ دونوں تین طلاقیں واقع ہونے اور حرمتِ مغلظہ ثابت ہونے کا علم رکھنے کے باوجود ساتھ رہے ہوں تو پھر ریما ناز پر عدتِ وطی واجب نہیں ہوگی۔

 اس نا اتفاقی کے دوران ان دونوں کی جو بچی مردہ پیدا ہوئی ہے، ان دونوں میں سے کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا مشکل ہے؛ کیونکہ بچے جس طرح زندہ پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح کبھی کبھی ویسے ہی مردہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ البتہ محمد عدنان شیخ کو اپنی اس بچی کی تجہیز و تکفین میں شریک ہونا چاہیے تھا۔  

حوالہ جات
القرآن الکریم :
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ. البقرة :[ 230]
صحيح البخاري (2/791):
حدثني محمد بن بشار قال حدثنا يحيى عن عبيد الله قال حدثني القاسم بن محمد عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثًا فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی الله علیه و سلم أتحل للأول؟ قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.
الفتاوى الهندية (1/ 473):
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.
الفتاوى الهندية (1/ 348-349):
أما تقسيمه فإنه نوعان: سني، وبدعي، وكل واحد منهما نوعان: نوع يرجع إلى العدد، ونوع يرجع إلى الوقت. أما الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان: حسن، وأحسن: فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها، أو كانت حاملا قد استبان حملها، والحسن أن يطلقها واحدة في طهر لم يجامعها فيه ثم في طهر آخر أخرى ثم في طهر آخر أخرى كذا في محيط السرخسی………. وأما البدعي فنوعان: بدعي لمعنى يعود إلى العدد، وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت، فالذي يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا، والبدعي من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعا.
الدر المختار (3/ 520-516):
( وعدة المنكوحة نكاحا فاسدا )….. ( والموطوءة بشبهة )……. ( الحِيَض للموت ) أي موت الواطىء ( وغيره ) كفرقة أو متاركة؛ لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا ( ولا اعتداد بحيض طلقت فيه ) إجماعا. ( وإذا وطئت المعتدة بشبهة ) ولو من المطلق ( وجبت عدة أخرى ) لتجدد السبب ( وتداخلتا والمرئي ) من الحيض ( منهما و ) عليها أن ( تتم ) العدة ( الثانية إن تمت الأولى ) وكذا لو بالأشهر أو بهما لو معتدة وفاة، فلو حذف قوله "والمرئي منهما" لعمهما وعم الحائل لو حبلت فعدتها الوضع إلا معتدة الوفاة فلا تتغير بالحمل كما مر، وصححه في البدائع.
رد المحتار (3/ 520-517):
قوله ( والموطوءة بشبهة ) كالتي زفت إلى غير زوجها، والموجودة ليلا على فراشه إذا ادعى الاشتباه كذا في الفتح. ….... ومن ذلك ما لو وطئ معتدته بشبهة وستأتي………....  قوله ( الحيض) جمع حيضة أي عدة المذكورات ثلاث حيض إن كن من ذوات الحيض، وإلا فالأشهر أو وضع الحمل……….…  قوله ( ولم يكتف بحيضة ) كالاستبراء؛ لأن الفاسد ملحق بالصحيح احتياطا، منح……….….. قوله ( بشبهة ) متعلق بقوله "وطئت" وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال ظننت أنها تحل لي، أو بعد ما أبانها بألفاظ الكناية وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالما بحرمتها لا تجب عدة أخرى؛ لأنه زنا.  وفي البزازية: طلقها ثلاثا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرا طلاقها لا تنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل…….  قوله ( والمرئي منهما الخ ) بيان للتداخل، فلو كانت وطئت بعد حيضة من الأولى فعليها حيضتان تكملة الأولى وتحتسب بهما من عدة الثاني، فإذا حاضت واحدة بعد ذلك تمت الثانية أيضا، نهر، وهذا إذا كان بعد التفريق بينهما وبین الواطىء الثاني، أما إذا حاضت حيضة قبله فهي من عدة الأول خاصة، وتمامه في البحر  عن الجوهرة، وقال: وإذا كان الواطىء هو المطلق فهل يشترط أن يكون بعد التفريق أيضا؟ لم أره صريحا اه  ح.  
 قلت: الظاهر أن التفريق حكم العقد الفاسد لرفع شبهته، أما الوطء بشبهة بدون عقد فإن الشبهة ترتفع بمجرد العلم بحقيقة الحال والله أعلم.   
الفتاوى الهندية (1/ 532):
المطلقة ثلاثا إذا جامعها زوجها في العدة مع علمه أنها حرام عليه ومع إقراره بالحرمة لاتستأنف العدة، ولكن يرجم الزوج، والمرأة كذلك  إذا قالت علمت بالحرمة، ووجدت شرائط الإحصان، ولو ادعى الشبهة بأن قال ظننت أنها تحل لي تستأنف العدة بكل وطأة، وتتداخل مع الأولى إلا أن تنقضي الأولى، فإذا انقضت الأولى وبقيت الثانية والثالثة كانت هذه عدة لوطء لا تستحق النفقة في هذه الحالة، وهذا الذي ذكرنا إذا جامعها مقرا بطلاقها، وأما إذا جامعها منكرا لطلاقها فإنها تستقبل العدة كذا في الذخيرة.
الفتاوى الهندية (1/ 475):
سئل شيخ الإسلام يوسف بن إسحاق الخطي عمن طلق امرأته ثلاثا وكتم عنها وجعل يطؤها فمضت ثلاث حيض ثم أخبرها بذلك هل يجوز لها أن تتزوج بزوج آخر؟ قال: لا؛ لأن الوطء جرى بينهما بشبهة النكاح وأنه موجب للعدة إلا إذا كان من آخر وطئها جرت ثلاث حيض. قيل له: فإن كانا عالمين بالحرمة مقرين بوقوع الحرمة الغليظة ولكن يطؤها فحاضت ثلاث حيض ثم أرادت أن تتزوج بزوج آخر؟ قال: يجوز نكاحها؛ لأنهما إذا كان مقرين بالحرمة كان الوطء زنا، والزنا لا يوجب العدة، ولا يمنع من أن تتزوج، وبه نأخذ، إلا إذا كانت حبلى على قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى حتى تضع حملها وعلى قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى يجوز ،كذا في التتارخانية.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

3/ربیع الثانی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب