74431 | نماز کا بیان | نماز کےمتفرق مسائل |
سوال
سوال:السلام علیکم!میں پانی کےجہاز(ship)پرکام کرتاہوں،کیااس میں نمازجماعت کےساتھ کرواناجائزہے؟کیونکہ کافی لوگ ہوتےہیں۔
بعض اوقات ہم سمندرمیں ہوتےہیں اوربعض اوقات ہم کنارےپرہوتےہیں،مگرمسجددورہوتی ہے،اورہم جہازچھوڑنہیں سکتے،دونوں صورتوں میں جب جہاز سمندرمیں ہویاپورٹ میں ہو،نماز باجماعت کروانا جائزہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چلتےہوئےبحری جہازیاکشتی میں نمازباجماعت پڑھناجائزہے،البتہ جہازاگرسمندرکےکنارےلگاہواہوتواس میں نمازکےجائزہونےنہ ہونےکےبارےمیں فقہاء کااختلاف ہے،حضرت والامفتی رشیداحمدنوراللہ مرقدہ نےاحسن الفتاوی ج 4ص 90 پرعدم جوازکوراجح قراردےکرفرمایاہےکہ جہازکاعملہ اترنےکی اجازت نہ دےتوجہازمیں نمازپڑھ لےمگربعدمیں اس کی قضاء کرے،احتیاط اسی قول پرعمل کرنےمیں ہے۔
لیکن جہازچونکہ بہت دنوں تک بھی کھڑارہتاہے،اورباربارنیچےاترکرنمازپڑھنےمیں بعض اوقات حرج ہوتاہےاس لیےان نمازوں کےلوٹانےمیں حرج اورمشقت ہے،اس لیےجہاں نیچےاترکرنمازپڑھنےمیں مشکلات ہوں تووہاں جہازکےاندربھی نمازپڑھنےکی اجازت ہے،کیونکہ بلاضرورت بھی جواز کاقول موجودہےتوبوقت ضرورت اس پرعمل کیاجاسکتاہے۔( ماخوذاز سابقہ فتاوی جلد50فتوی نمبر 48268)
صورت مسئولہ میں بھی چونکہ بارباراترکرنمازپڑھنےمیں حرج معلوم ہوتاہے(جیساکہ صورت مسئولہ میں تفصیل ذکرکی گئی ہے)اس لیےجہازاگرپورٹ پرکھڑاہوتب بھی جہازکےاندرنمازپڑھنےکی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 5 / 421:
( قوله والمربوطة في الشط كالشط)فلا تجوز الصلاة فيها قاعدا اتفاقا،وظاهرمافي الهداية وغيرها الجواز قائما مطلقا أي استقرت على الأرض أو لا ، وصرح في الإيضاح بمنعه في الثاني حيث أمكنه الخروج إلحاقا لها بالدابة نهر واختاره في المحيط والبدائع بحر ، وعزاه في الإمداد أيضا إلى مجمع الروايات عن المصفى وجزم به في نور الإيضاح ، وعلى هذا ينبغي أن لا تجوز الصلاة فيها سائرة مع إمكان الخروج إلى البر وهذه المسألة الناس عنها غافلون شرح المنية۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
04/ربیع الثانی 1443 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |