021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ضعیف حدیث کے حسن لغیرہ ہونے کی صورتیں
74483حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ضعیف حدیث مطلقا کثرت طرق کے ساتھ  حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے یا اس کی شرائط ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ضعیف حدیث جب کثرتِ طرق سے مروی ہوتو وہ مطلقا حسن لغیرہ کے درجہ کو نہیں پہنچتی،  بلکہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے مخصوص شرائط کے ساتھ اس کی دو صورتیں ذکر کی ہیں:

پہلی صورت:

اگر اس روایت میں ضعفِ خفیف ہو تو اس صورت میں اس روایت  کا کم ازکم  ضعفِ خفیف والا ایک  طریق  مزید ایسا ہو، جس سے اس روایت کا ضعف دور ہو جائے تو وہ روایت حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جائے گی،  اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مدارِ سند ایک ہی راوی ہو اور وہ ضعیف ہو تو اس سے آگے جتنے رواة اس روایت کو نقل کریں گے اس سے یہ روایت حسن لغیرہ کے درجہ کو نہیں پہنچے گی، مثلا: جبَر بن عَبیدہ ایک  ضعیف راوی ہیں، ان سے دو شخص روایت لیتے ہیں، تو اگرچہ اختلافِ رواة کی وجہ سے یہ دو مختلف طرق سمجھے جائیں گے، لیکن چونکہ ان دونوں کے مروی عنہ شیخ ایک ہیں اور وہ ضعیف ہیں تو ان دونوں کی روایت ایک دوسرے کے لیے متابعت کا فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ جَبر بن عَبیدہ کا ضعف ختم نہیں ہوا، البتہ اگر جَبر بن عَبیدہ کے شیخ سے یہی روایت کوئی دوسرا ضعیف راوی لے لے تو یہ روایت متابعت کا فائدہ دے گی، جس سے جَبر بن عَبیدہ کا ضعف کم ہو جائے گا اور روایت کثرتِ طرق(محدثین کرام رحمہم اللہ  کی تصریح کے مطابق کثرت کے لیے دو طرق بھی کافی ہیں[1]) کی وجہ سے حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جائے گی، جمہور محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک ضعیف حدیث کے حسنِ لغیرہ کے درجہ تک پہنچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے۔

دوسری صورت:

    اگر روایت میں ضعفِ شدید ہو تو  جمہور محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ روایت کثرتِ طرق کی وجہ سے حسن لغیرہ کے درجہ کو نہیں پہنچے گی، کیونکہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعفِ شدید والی روایت متابعت اور شاہد ہونے کا فائدہ نہیں دیتی، البتہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے ایسی روایت کے بارے میں یہ تفصیل ذکر کی ہے کہ اگر  اس روایت کے مزید دو طرق ہوں، خواہ اُن دونوں میں ضعفِ خفیف ہویا ایک میں ضعفِ شدید اور دوسرے میں ضعفِ خفیف ہو، اگر دونوں میں ضعفِ خفیف ہو تو یہی دو طرق حسن لغیرہ کا درجہ لے لیں گے، جس کی تفصیل پہلی صورت کے تحت گزر چکی ہے۔ اور اگر ایک میں ضعفِ شدید اور دوسرے میں ضعفِ خفیف ہو تو اس صورت میں ضعفِ شدید والے دو طرق مل کر بعض اوقات  (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)  مستور راوی کی روایت کا درجہ لے  لیں گے، اس کے بعد اگر ان دونوں کے علاوہ  کوئی تیسرا طریق ضعفِ خفیف والا مل جائے تو  ان  تینوں  طرق کے مجموعہ   کی وجہ سے   یہ روایت  حسن لغیرہ کا درجہ لے لے گی، چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ تدریب الراوی میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:

 (وأما الضعف لفسق الراوي)، أو كذبه، (فلا يؤثر فيه موافقة غيره) له، إذا كان الآخر مثله ; لقوة الضعف وتقاعد هذا الجابر. نعم يرتقي بمجموع طرقه عن كونه منكرا أو لا أصل له. صرح به شيخ الإسلام، قال: بل ربما كثرت الطرق حتى أوصلته إلى درجة المستور والسيئ الحفظ، بحيث إذا وجد له طريق آخر فيه ضعف قريب محتمل ارتقى بمجموع ذلك إلى درجة الحسن.[2]

اس عبارت کو  علامہ  عبدالرؤوف مناوی نے "الیواقیت والدرر" میں    اور علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اعلاء السنن کے مقدمہ (یہ مقدمہ  شیخ عبدالفتاح ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ کی تعلیقات کے ساتھ قواعد فی علوم الحدیث کے نام سے علیحدہ بھی چھپ چکا ہے) میں بھی نقل کیا ہے۔[3] اس مقدمہ پر علامہ عبد الفتاح ابوغدہ صاحب رحمہ اللہ کی تعلیقات بھی ہیں۔ انہوں نے بھی اس  عبارت  پر کوئی   اشکال نہیں کیا،  اس سے معلوم  ہوا کہ یہ سب حضرات اس اصول سے متفق ہیں اور ان كے نزديك ضعف ِشدید والی روایت بھی اگر کم از کم  تین مختلف طرق سے  مروی ہو اور ان میں سے ایک طریق میں ضعفِ خفیف ہو تو یہ روایت حسن لغیرہ کا درجہ لے لے گی۔

لیکن شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے  اس اصول کا رد کیا ہے    اورعلامہ ماہر یسین الفحل  حفظہ اللہ  نے  اسی رائے کو درست قرار دیا ہے، ان حضرات کی رائے یہ ہے کہ دوسرے ضعیف  طریق کی وجہ سے ضعفِ شدید  والی روایت کا ضعف  کم نہیں  ہو گا۔کیونکہ ضعیف رواة ایک دوسرے سے روایت چوری کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ روایت ضعفاء کے ہاں معروف ہو جاتی ہے، جبکہ ثقہ رواة کے ہاں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا، اس لیے ضعفاء کے نقل کرنے کی وجہ سے ضعف میں كمی كی بجائے مزید اضافہ ہو گا،  لہذا  ایسی روایت  ضعفِ خفیف  والے ایک طریق کی وجہ سے حسن لغیرہ کے درجہ کو نہیں پہنچے گی۔[4]

اگرچہ ائمہ حدیث  نے تصریح کی ہے  کہ خبر واحد كا درجہ رکھنے والی روایت کی تصحیح اور تضعیف ظنی چیز ہے،  نہ کہ قطعی اور یقینی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ  روایت پر حکم کا مدار  سند کے رواۃ پر ہوتا ہے اور یہ مسلمہ امرہے کہ کبھی  سچا آدمی بھی جھوٹ بول لیتا ہے اور کبھی جھوٹا بھی سچ بول دیتا ہے۔جیساکہ شیخ عبدالحق  محدث دہلوی رحمہ اللہ مقدمہ فی اصول الحدیث میں روایت پر حکم بالوضع سے متعلق تحریرفرمایا ہے:

 مسألة الحكم بالوضع ظنية۔۔۔۔۔۔والحكم بالوضع والافتراء بحكم الظن الغالب وليس إلى القطع واليقين فإن الكذوب قد يصدق۔[5]

لہذا  جب  حدیث پر وضع اور ضعفِ شدید کا حکم ظنی چیز ہے  اور حدیث کی عظمت اور نزاکت کی وجہ سے اس میں یہ احتمال ہے کہ جھوٹے راوی نے حدیث کے معاملے میں سچائی سے کام لیا ہو۔ پھر جب ایک روایت  تین مختلف طرق سے مروی ہو اور ان میں ایک طریق قابلِ اعتبار بھی ہو  تو  اس روایت کی اصل کے  موجود ہونے کا امکان بڑھ جاتا  ہے، شاید اسی وجہ سے محقق العصر شیخ محمد عوامہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے بھی تدریب الراوی کی تعلیقات میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے موقف کو تسلیم کیا ہےاور انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایسی روایت کافی زیادہ طرق سے مروی ہو تو  یہ  روایت صحیح لغیرہ کا درجہ بھی لے سکتی ہے۔

التعليقات على تدريب الراوي للشيخ محمد عوامة (76/3) داراليسر،بيروت:

معنى هذا: أن الضعيف الشديد الضعف قد يرتقي إلى رتبة الضعيف المتوسط الضعف بكثرة طرقه، وهذة الكثرة ترتقي إلى الحسن لغيره إذا اعتضدت بإسناد مثلها متوسط الضعف، وقال الحافظ كلاما قريبا من هذا في اخر"الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع"ص:90إلا كلمة"أوجهالة" فينظر مايأتي:91/4.۔ [6]

وهل يرتقي هذا الحديث الحسن لغيره إلى رتبة الصحيح لغيره، إذا كثرت الطرق الضعيفة۔ ولوضعيفا شديدا۔أو لا؟ الجواب نعم!يجب هذا الحديث الذي ارتقت طرقه الشديدة الضعف أولا إلى الحسن لغيره ثم  وقف الباحث على طرق اخرى كثيرة له يصل إلى رتبة الصحيح لغيره۔ ومادام الحديث في المرحلة الأولى قد بلغ رتبة الحسن فأي غرابة أو نكارة في ارتقائه إلى مرتبة الصحة، وكونه لغير فلايؤثر ولا يشكل وكون هذه النتيجة ،وهذا الجواب غير مشهور في كتب علوم الحديث لايؤثر على صحته وقبوله، ومع ذلك كلام التقي السبكي وابن كثير الشعراني في قواعد علوم الحديث ص:82 مع التعليق عليه، فعندهم النص الصريح على هذا الجواب۔

اسی لیے شیخ محمد عوامہ صاحب حفظہ اللہ نے مصنف ابن ابی شیبہ کی د رج ذیل روایت کے تحت لکھا ہے کہ مجمع الزوائد میں اس کے شواہد موجود ہیں، جبکہ اس میں ایک ضعف شدید والا راوی موجود ہے:

مصنف ابن أبي شيبة (9/ 405، رقم الحديث: 17699 )مكتبة الرشد، رياض:

حدثنا أبو بكر قال: نا أبو خالد الأحمر، عن إسماعيل بن نافع، عن زيد بن أسلم، قال: سمعته يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من نكح امرأة وهو يريد أن يذهب بمهرها، فهو عند الله زان يوم القيامة»

یہ روایت مرسل ہے اور اس کی سند میں اسماعیل بن رافع بن عویمر نامی راوی پر شدید جرح کی گئی ہے، چنانچہ امام نسائی رحمہ اللہ نے "متروک الحدیث"، امام دارقطنی نے "متروک" اور عباس دوری رحمہماللہ نے "لیس بشیئ" کے الفاظ سے جرح کی ہے، اگرچہ بعض حضرات نے اس پر جرح خفیف کی ہے، لیکن شیخ محمد عوامہ صاحب حفظہ اللہ نے مصنف ابن ابی شیبہ پر تعلیقات میں اس کو"منکر الحدیث" اور "متروک" قرار دیا ہے اور راوی کا متروک ہونا تیسرے یا چوتھے درجے کی جرح ہے، جو کہ جرح شدید ہے اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اس کی روایت متابع اور شاہد کا فائدہ نہیں دیتی، مگر شیخ عوامہ صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی روایت کے شواہد موجود ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک ضعفِ شدید والی روایت کو شواہد سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، دیکھیے عبارات:

مصنف ابن أبي شيبة (9/ 405، رقم الحديث: 17699 )مكتبة الرشد، رياض:

قال محمد عوامة: هذا مرسل وإسماعيل بن رافع منكر الحديث متروك، ولم يعزه السيوطي في الدر المنثور إلا للمصنف وهو عند عبد الرزاق عن  إبراهيم الأسلمي وابن جريج عن زيد بن أسلم وفيه زيادة والأسلمي متروك وابن جريج عنعن مراسيل زيد بن أسلم كأنها مستضعفة عيد يحي القطان ولهذا الحديث شواهد في المرفوع، انظر"مجمع الزوائد: ج: 4، ص: 284،132،13)

      پیچھے ذکر کی گئی تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک اگر ضعفِ شدید والی روایت کثرتِ طرق سے مروی ہو اور ان میں سے کسی ایک طریق میں ضعفِ خفیف ہو اور قرائن سے غالب گمان کی حد تک ضعیف رواة کا صدق معلوم ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اس روایت کے ضعفِ شدید میں کمی آجائے گی اور یہ روایت قابلِ اعتبار سمجھی جائے گی اور پھر دوسرا طریق چونکہ پہلے ہی قابلِ اعتبار ہے، اس طرح مجموعہٴ طرق سے یہ روایت حسن لغیرہ کا درجہ لے سکتی ہے۔

تنبیہ:

یہ بات یاد رہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کا ذکرکردہ اصول عام نہیں، بلکہ یہ اس شرط کے ساتھ خاص ہے کہ جب ضعفِ شدید والے طرق کا مجموعہ ایک قابلِ اعتبار روایت کا درجہ لے لیں، اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ اصول ذکر کرتے ہوئے " ربما كثرت الطرق حتى أوصلته إلى درجة المستور " کے الفاظ ذکر کیے ہیں، حافظ صاحب رحمہ اللہ کے بعد حضرات نےبھی اسی طرح عبارت نقل کی ہے اور پھر شیخ محمد عوامہ صاحب مد ظلہم  نے اسی عبارت کو"قد يرتقي إلى رتبة الضعيف المتوسط الضعف" سے تعبیر فرمایا ہے،پہلی عبارت میں لفظ"ربما" اوردوسری میں ذکرکیے گئے لفظِ"قد" ميں اشاره  ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہو گا کہ پیچھے ذکرکردہ تفصیل کے مطابق طرق  کثیرہ آجائیں تو وہ روایت حسن لغیرہ کا درجہ لے لے گی۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو گا کہ جب بھی اس طرح تین طرق جمع ہوں تو وہ روایت حسن لغیرہ کہلائے گی۔

رہی یہ بات کہ ضعفِ شدید والے طرق قابلِ اعتبار طریق کا درجہ کب لیں گے؟ تو اس کا علم رواة کی صورتِ حال کا جائزہ لینے اور دیگر قرائن ملنے کے بعدہو سکتا ہے ، مثلا: ان طرق میں کوئی کذاب، دجال، متہم بالکذب اور متہم بالوضع راوی نہ ہو اور کوئی ایسا راوی بھی نہ ہو جس کا ضعف ان کے مرتبہ میں ہو، کیونکہ ایسے راوی کی روایت تقویت کا فائدہ نہیں دیتی، اسی طرح اگر اس روایت کے رواة پر کی گئی جرح میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہو، بعض نے ان پر جرحِ شدید اور بعض نے جرحِ خفیف کی ہو تو ایسی صورت میں جرحِ خفیف والے ائمہ کرام رحمہم اللہ کی جرح کا اعتبار کرتے ہوئے اس کو حسن لغیرہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

چنانچہ جن حضرات نے اس اصول کو ذکر کیا ہے  ان کی  ذکرکی گئی مثالوں سے  بھی یہی معلوم ہوتا ہے،چنانچہ سب سے پہلے یہ اصول  ذکرکرنے والےحافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب نتائج الافکار میں ایک روایت کے چار طرق نقل کیے، جن میں سے  تین طرق میں حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ضعفِ شدید کے پائے جانے کی صراحت کی ہے، اگرچہ  ان میں شدتِ ضعف کے اعتبار سے فرقِ مراتب ہے، مگر سب میں ضعفِ شدید پایا جاتا ہے  اور چوتھے طریق کے بارے میں حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ضعفِ  شدیدکے حوالے سے کوئی بات ذکر نہیں کی، البتہ اس کو عبد الله بن ابى سليمان پر موقوف قرار دیا ہے، جن کے حالات اسمائے رجال کی کتب میں نہیں ملے، ان چارطرق  كو ذكركرنے كے بعد اس روایت کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے صرف یہ ذکر کرنے پر اکتفاء کیا کہ  یہ روایت فضائل کے باب میں  قابلِ عمل ہے۔ حسن لغیرہ ہونے کا حکم نہیں لگایا،البتہ ان سب طرق کے مجموعہ کو حافظِ صاحب رحمہ اللہ نے قابلِ اعتبار طریق کے قائم مقام قرار دیا ہے، اسی لیے مجموعہٴ طرق کی بناء پر انہوں نے اس روایت کو فضائل کے باب میں معتبر مانا ہے۔

نتائج الأفكارفي تخريج أحاديث الأذكار: (ج:5ص:291) للحافظ ابن الحجر العسقلاني، دارابن كثير، بيروت:

حدثنا المنهال بن عمرو عن سليمان بن مسلم عن سليمان بن بريدة عن أبيه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أهبط الله ادم عليه السلام إلى الأرض طاف

 

بالبيت وصلى ركعتين ثم قال اللهم إنك تعلم سري وعلانيتي فاقبل معذرتي وتعلم حاجتي فأعطني سؤالي، وتعلم ما عندي فاغفر لي ذنبي۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

قلت: هذا حديث غريب فيه سليمان بن مسلم الخشاب ضعيف جدا، لكن تابعه حفص بن سليمان عن علقمة بن مرثد عن سليمان بن بريدة۔

وأخرج أبو الوليد الأزرقي في كتاب مكة من طريق حفص وهو ضعيف أيضا، لكنه إمام في القرأة۔ وأخرجه الأزرقي أيضا من طريق عبد الله بن أبي سليمان مولى بني مخزوم موقوفا عليه۔ ووقع لنا أيضا من حديث عائشة  قرأت على فاطمة بنت محمد المقدسية ونحن نسمع بصلاحية دمشق عن أبي العماد، قال: أخبرنا أبو محمد بن بنيان في كتابه قال: أخبرنا إسحاق بن أحمد الحافظ قال:

أخبرنا الحسن بن أحمد المقرئ، قال: أخبرنا أحمد بن عبدالله الحافظ قال: أخبرنا سليمان بن أحمد قال: حدثنا محمد بن علي الأقمر قال: حدثنا النضر بن طاهر قال: حدثنا معاذ بن محمد عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها فذكر الحديث مختصرا۔

والنضر أشد ضعفا من سليمان الخشاب والخشاب أشد ضعفا من حفص۔ وهذه الطرق الأربعة ترقى الحديث إلى مرتبة ما يعمل به في فضائل الأعمال كالدعاء والله أعلم۔

خلاصہ یہ ہے کہ جمہور محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک ضعفِ شدید والے طرقِ کثیرہ حسن لغیرہ کا درجہ نہیں لیں گے، البتہ بعض ائمہ کرام جیسے حافظ ابنِ حجر اور علامہ سیوطی رحمہما اللہ وغیرہ کے نزدیک پیچھے ذکرکی گئی تفصیل کے مطابق جب ضعفِ شدید والے طرق ایک قابلِ اعتبار طریق کا درجہ لے لیں تو مزید ایک قابلِ اعتبار طریق آنے سے ایسی روایت حسن لغیرہ بن سکتی ہے، البتہ پھربھی احتیاط اس میں ہے کہ اگر ایسی حدیث کا تعلق احکام کے باب سے ہو تو اس پر حسن کا حکم نہیں لگانا چاہیے،کیونکہ احکام کا معاملہ فضائل کی بنسبت زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ اسی لیے محدثین حضرات صرف فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ اس میں ضعفِ شدید نہ ہو، جبکہ احکام میں ضعف حدیث پر عمل کی اجازت نہیں دیتے، اگرچہ اس میں ضعفِ خفیف ہو۔

 


[1] تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 191) عبد الرحمن بن أبي بكر، السيوطي (المتوفى: 911ھ) دار طيبة۔

(مشهورا بالصدق والستر) وقد علم أن من هذا حاله فحديثه حسن (فروي حديثه من غير وجه) ولو وجها واحدا آخر۔

قواعد في علوم الحديث للشيخ ظفر احمد العثماني(ص:78)، داراليسر، بيروت:

والحديث الضعيف إذا تعددت طرقه ولو طريقا واحدة أخرى ارتقى بمجموع ذلك إلى درجة الحسن وكان محتجا به۔

[2] تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 194) عبد الرحمن بن أبي بكر، السيوطي (المتوفى: 911ھ) دار طيبة۔

[3] اليواقيت والدرر شرح شرح نخبة الفكر (2/ 172) زين الدين محمد المناوي (المتوفى: 1031ھ) مكتبة الرشد – الرياض۔

أما الضعيف لفسق الراوي أو كذبه فلا يؤثر فيه متابعة ولا موافقة إذا كان الآخر مثله، لقوة الضعف وتقاعد هذا الجابر، نعم (يرتقي) بمجموع طرقه عن كونه منكرا أو لا اصل له - كما قاله المؤلف - قال: بل ربما كثرت الطرق حتى أوصلته إلى درجة المستور والسئ الحفظ بحيث إذا وجد له طرق أخر فيه ضعف قريب / محتمل ارتقى بمجموع ذلك إلى الحسن.

کذا فی قواعد فی علوم الحدیث (ص: 81) الشیخ ظفر احمد العثمانی ، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ۔

[4] أثر علل الحديث في اختلاف الفقهاء (ص: 37) دار عمار للنشر، عمان:

وقد تعقب العلامة أحمد شاكر هذا بقوله: (وأما اذا كان ضعف الحديث لفسق الراوي أو اتهامه بالكذب ثم جاء من طرق اخرى من هذا النوع فانه لا يرقى الى الحسن بل يزداد ضعفا الى ضعف، اذ أن تفرد المتهمين بالكذب أو المجروحين في عدالتهم بحديث لا يرويه غيرهم يرجح عند الباحث المحقق التهمة ويؤيد ضعف رواياتهم، وبذلك يتبين خطأ المؤلف وخطؤه في كثير من كتبه في الحكم على أحاديث ضعاف بالترقي الى الحسن مع هذه العلة القوية) .

وهذا هو الحق الذي لا مرية فيه، فان الضعفاء قد يسرق بعضهم من بعض ويشتهرعندهم فقط، ولا نجده في روايات الثقات الأثبات مما لا يزيد الضعيف الا ضعفا على ضعف.

[5] مقدمة في أصول الحديث (ص: 64) عبد الحق الدهلوي (المتوفى: 1052هـ) دار البشائر الإسلامية،بيروت۔

 

[6] التعليقات على تدريب الراوي للشيخ محمد عوامة (91/4) داراليسر،بيروت:

ومما يحسن التنبيه إليه هنا: ماجاء في كلام الحافظ رحمه الله أخر جزئه " قال: إن الحديث الذي ضعفه ناشئي عن تهمة أو جهالة إذا كثڑت طرقه ارتقى عن مرتبة المردود والمنكر، هكذا في طبيعته وهذا صحيح إلا قوله جهالة فقد سوى الحافظ بين المجهول أي قسم من الجهالات الثلاثة والمتهم وهذا ما لا يقول به أحد على أن في تمام الكلام ركاكة، والله تعالى أعلم بصوابه۔

حوالہ جات
.....

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

4/ربيع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب