021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پرائیوٹ اداروں کیلئے زکوة جمع کرنا
74415زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے چندسال قبل ایک ٹرسٹ بنام بادبان ٹرسٹ قائم کیا جواسلام آباد میں رجسٹرہے،ٹرسٹ کے مختلف کاموں میں سے ایک زکوة کی رقم جمع کرکےمستحقین تک پہنچانابھی ہے،اس ٹرسٹ کے نظام زکوة کوچلانے کیلئے درج ذیل مسائل اورمشکلات  کاسامناہے،اس حوالہ سے راہنمائی درکاہے۔

پہلاسوال یہ ہے کہ کیامعاشرے سے زکوة اکھٹی کرناصرف ریاست کاکام ہے یاپرائیویٹ ادارے بھی کرسکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لوگوں کے پاس موجودمال دوقسم کاہوتاہے،اموال ظاہرہ  اوراموال باطنہ۔

اموال ظاہرہ کامطلب ہے ایسامال جس کومخفی رکھنامشکل ہو،جیسے مال تجارت ،اونٹ اوربکریاں وغیرہ ۔

اموال باطنہ کامطلب ہے ایسامال جس کوبآسانی چھپایاجاسکتاہو،جیسے رقم ،سونا اورچاندی ۔اموال باطنہ کی زکوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک لوگ خوداداکرتے آرہے ہیں ،جبکہ اموال ظاہرہ کی زکوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لیکرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک اسلامی حکومت  کی طرف سے نامزد افراد وصول کرکے مصارف میں خرچ کرتے تھے،جب اموال  اوردینے والوں کی کثرت ہوگئی توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیگرصحابہ کرام سے مشورہ کرکے یہ ذمہ داری بھی ارباب اموال کے سپردکردی،حاصل یہ ہے کہ زکوة کی رقم جمع کرکےمستحقین تک پہچانا یہ صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں،بلکہ ہرصاحب حیثیت شخص کی ذمہ داری ہے،اس ذمہ داری کوانفرادی اوراجتماعی دونوں طرح انجام دیاجاسکتاہےیعنی ٹرسٹ اورادارہ بناکر یہ خدمت کی جائے تواس کی  بھی اجازت ہے۔

حوالہ جات
فی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج 3 / ص 393):
الأموال الباطنة لا يطالب الإمام بزكاتها فلم يكن لزكاتها مطالب من جهة العباد سواء كانت في العين أو في الذمة فلا يمنع وجوب الزكاة كديون الله تعالى من الكفارات والنذور وغيرها بخلاف الأموال الظاهرة ؛ لأن الإمام يطالب بزكاتها.
وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج 3 / ص 394):
 حق الأخذ للسلطان وكان يأخذها رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر إلى زمن عثمان فلما كثرت الأموال في زمانه وعلم أن في تتبعها زيادة ضرر بأربابها رأى المصلحة في أن يفوض الأداء إلى أربابها بإجماع الصحابة فصار أرباب الأموال كالوكلاء عن الإمام .

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

04/ربیع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب