021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زبردستی پیپر پر طلاق(جبرا طلاقنامہ پردستخط کروانا)
74536طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

میرے اور میری بیوی کے بہت لڑائی جھگڑے ہوتے تھے جس کی وجہ سے میری بیوی اپنے میکے چلی گئی اور وہیں رہنے لگی ،جب میں لینے گیا تو جھگڑا اور بڑھ گیا ،جھگڑے کی آواز سن کر میرے سسر آگئے اور اس جھگڑے کے دوران ان کو دھکا لگا اور وہ گر  گئے اور ان کا انتقال ہو گیا ، میرے سسرال والوں نے سارا الزام مجھ پر  ڈال  دیا کہ تم نے دھکا دیا ہے جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا ہے ، اس بات کو ایشو بنا  کر مجھے اور میرے گھر والوں پر دباؤ ڈالا کہ تم طلاق دےدو ورنہ ہم تم پر 302 کا کیس کر دیں گے،یہ بات سن کر میں دوسرے شہر چلا گیا  تاکہ طلاق کے پیپر پر سائن نہ ہو سکے کیونکہ میں طلاق نہیں دینا چاہتا تھا؛کیونکہ میرا ایک تین سالہ بچہ بھی ہے، جس پر میرے سسرال والوں نے بولا اگر تم نے پیپر پر سائن نہیں کئے تو ہم تمہارے بھائی اور بہنوں کو اٹھوالیں گے ۔یہ میری بہنوں کے سسرال کا معاملہ تھا اور مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ ایسا کرتے کیونکہ میرا بڑا ساڑو(ہم زُلف) F.I.A میں ہے ، میں نے بحالت مجبوری صرف پیپر پر سائن کیے ہیں،نہ میری نیت تھی طلاق دینے کی نہ میں نے زبان سے طلاق بولا ،صر ف طلاق نامہ پر سائن کیے ہیں وہ بھی صرف مجبوری میں ،اگر میں نہ کرتا تو وہ یقینا جھوٹا کیس 302 کرتے اور میرے بھائی اور بہنوں کو اٹھوالیتے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت واقعہ اگر حقیقت پر مبنی ہے تو جواب میں یہ تفصیل ہوگی: جبراً دلوائی گئی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی اور ایسی صورت میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے قتل ،یا ایسی مارپیٹ کی دھمکی ضروری نہیں جس سے کسی عضو کے تلف ہونے یا معذور ہونے کا اندیشہ ہو،جسے فقہ کی اصطلاح میں اکراہِ ملجئ کہا جاتا ہے،بلکہ اس حوالے سے اکراہِ ناقص بھی کافی ہے،لہذا مذکورہ صورت میں  اگر آپ کو اس بات کا یقین یا غالب گمان تھا کہ اگر  آپ طلاق کے پیپر پر دستخط نہیں کریں گے تو آپ کےخلاف 302 کا جھوٹا کیس کردیں گے (جس میں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے)یا   آپ کے گھر والوں کو اٹھوالیں گے،اور آپ نے نہ زبان سے طلاق کے الفاظ ادا کیے اور نہ دستخط  کرتے وقت طلاق دینے کی نیت تھی  تو  صرف دستخط کرنے سےطلاق واقع نہیں ہوئی؛کیونکہ اگر کسی کو ضرب و حبس کے ذریعے کتابتِ طلاق پر مجبور کیا گیا تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔بصورت دیگر یعنی اگر  آپ کواس بات پر  یقین  تھا کہ طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت  میں ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ یہ صرف زبانی کلامی دھمکی دے رہے ہیں،تو پھر طلاق واقع ہو جائے گی۔

حوالہ جات
وفی الفتاوی الھندیۃ: رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان.
(الفتاوی الھندیۃ:1/379)
قال العلامۃابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: (قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو.(رد المحتار:6/129)
وقال ایضا:(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير. (رد المحتار:6/129)
قالالعلامۃ الحصكفيؒ: (ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق.
وعلق عليه ابن عابدين رحمۃ اللہ علیہ:وإلا فإقرار المكره بغيره لا يصح أيضا كما لو أقر بعتق أو نكاح أو رجعة أو فيء أو عفو عن دم عمد أو بعبده أنه ابنه أو جاريته أنها أم ولده كما نص عليه الحاكم في الكافي. هذا، وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية.
(ردالمحتار :3/235-236)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب