74461 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | کئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان |
سوال
زید فوت ہوا اور اس کے ورثہ میں سے ایک بیٹی کو دو ایکڑ زمین میراث میں ملی۔اس نے اپنا حصہ پہلےکاشتکاری کے لیے اپنے ایک بھائی کو دی اور پھر پوری زمین اپنے دو بھائیوں کو ہبہ کردی۔تو کیا اس صورت میں ہبہ درست ہوگا؟
پھر کچھ عرصہ بعد بیٹی بیمار ہوئی اور علاج پر کا فی خرچہ ہوا۔تو اس کےچچا نے اس سے کہا کہ اگر آپ کی اجازت ہوتوجو زمین آپ نے اپنے بھائیوں کو ہبہ کی تھی اسے بیچ کر رقم آپ کےشوہر کو دی جائے تاکہ علاج کا قرض ادا کیا جائے۔تو اس نے کہا اجازت ہے۔تو کیا یہ اجازت ہبہ سے رجوع سمجھا جائے گا یا نہیں؟
اس کے بعد وہ وفات پا گئی۔اب اس کی وفات کے سات ماہ بعد چچا اس زمین کو بیچنا چاہتا ہے۔ تو کیا اس عورت کے ورثہ کی اجازت کے بغیر اسے بیچنے کا حق حاصل ہے ؟
نیز یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ اس زمین کے وارث کون ہیں؟اور ان ورثہ کی اجازت کے بغیر زمین کو بیچنا کیسا ہے؟
مرحومہ کے ورثہ میں شوہر اور تین بیٹے موجود ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت اگر واقعے کے مطابق ہے تو کیونکہ بہن نے ہر بھائی کا حصہ الگ کر کے انہیں ہبہ نہیں کیا اس لیے یہ ہبۃالمشاع ہونے کی وجہ سے نافذنہیں ہوا۔لہذا زمین بہن ہی کی ملکیت میں رہے گی اور اس کی وفات کے بعد چچا کو بیچنے کا حق حاصل نہیں،بلکہ زمین مرحومہ کے ورثہ یعنی شوہر اور تین بیٹوں میں شرعی طریقے سےتقسیم ہوگی۔
حوالہ جات
(ومنها) أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم وتجوز فيما لا يقسم كالعبد والحمام والدن ونحوها(بدائع الصنائع،کتاب الھبۃ:6/119)
ولو قال وهبت لك نصفها ولهذا نصفها لم يجز لأن الشيوع دخل على نفس العقد فمنع الجواز(بدائع الصنائع،کتاب الھبۃ:6/122)
(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع(تنویر الابصار مع الدر المختار:5/692)
محمد انس جمال
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
3/4/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | انس جمال بن جمال الدین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |