021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جانور بٹائی پر دینا(جانورنصف نصف پر پالنا)
74598اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں  جو لوگ قربانی کے لیے جانور پالتے ہیں ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ  کافی سارے جانور خرید کر کسی کو پالنے کے لیے اس شرط پر  دیتے    ہیں کہ سارا سال وہ ان جانوروں کو پالے گا اور  پالنے پر جو بھی    خرچہ ہو گا ،وہ پالنے والا خود ہی کرے گا، اور عید کے موقع پر جب جانور تیار ہو جائیں گے  وہ دونوں  شریک جانور  آدھے آدھے آپس میں  تقسیم کرلیں گے یا  ان تمام جانوروں کو بیچ کر  جو رقم حاصل ہو گی وہ آپس میں تقسیم کرلیں گے،کیا ایسا کرنا جائز  ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    جانوروں کو شرکت پر دینے کی مذکورہ صورت درست نہیں ہے، ایسی صورت میں  تمام جانور مالک کے ہی  ہوں گے، اور پالنے والے کو  چارے کا خرچہ  اوراجرت دی جائے گی، یعنی عام طورپر  جانور پالنے اور رکھنے کی جواجرت بنتی ہے، پالنے والااس اجرت کا مستحق ہوگا۔یہ معاملہ کرنے سے تو شراکت داری وجود میں نہیں آتی ۔ جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سال بھر پالنے کی کوئی  اجرت اور ادائیگی کی تاریخ طے کر لی جائے ، پھر جانور بکنے کے بعد حاصل شدہ رقم سے اجرت ادا کردی جائے ، ادائیگی کے موقع پر مزید بھی کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الکاساني ؒ:لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع.(بدائع الصنائع:6/62)
وفي الفتاوی الھندیۃ:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه.(الفتاوی الھندیۃ:4/445)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

10 ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب