021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فقہ جعفریہ میں نام لکھوانے کا حکم (وارثوں کومحروم کرنےکی غرض سےعدالت میں اپنانام فقہ جعفریہ میں نام لکھوانا )
74390ایمان وعقائداسلامی فرقوں کابیان

سوال

ایک  شخص کی اولاد میں  چار بیٹیاں  اور   اس  کی ایک بیوی ہے ،اور اس کا ایک بھائی اور تین بہنیں ہیں ، مرحوم کا کوئی بیٹا نہیں  ہے ،اور یہ ورا ثت اس کے بھائی بہنوں میں بھی تقسیم  ہونی تھی۔ اس کی بیٹیوں کو کسی نے بتایا  کہ اس کی وراثت   مرحوم کے بھائی  بہنوں کی طرف  منتقل ہوسکتی ہے ، اس کے  لئے آپ کو فقہ  جعفریہ کو ماننے   کا  بیاں حلفی  عدالت میں جمع کروانا  پڑے گا، انہوں نے آسانی کے لئے  یہ کام کرلیا ،اور عدالت میں بیان حلفی دیدیا کہ  ہمارا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے ،ہماری  وراثت  فقہ جعفریہ کے مطابق تقسیم کی جائے ،اور وہ اپنے نام   وراثت بھی منتقل کرواچکی ہیں عدالت میں بیان دے کر ۔

سوال یہ ہے کہ  ان کا تعلق تو  فقہ جعفریہ سے نہیں  ہے ،شادی شدہ  بھی ہیں ، اور  نکاح بھی فقہ حنفیہ  کے مطابق  ہوا ہے ، مگر محض  آسانی کے لئے  انہوں نے ایسا کیا ہے ، تو ان کے بارے میں شریعت  کا کیا  حکم ہے؟ آیا  وہ بری الذمہ  ہیں یا دائرہ  اسلام سے  خارج ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

گمراہ  فرقے میں سےجو لوگ  کفریہ  عقیدہ  رکھتے ہیں ،ایسے  لوگ  دائرہ اسلام  سے خارج  ہیں ،  دیگر  بد عقیدہ  لوگ جو تبرّا کرتے ہیں  ان پر اگر چہ کفر کا فتوی  نہیں ،تاھم ایسے  لوگوں کے ساتھ  اٹھنے  بیٹھنےاور کھانے  پینے وغیرہ  میں شرکت کرنے سے حدیث  شریف  میں  منع کیاگیا ہے  ۔ کسی مسلمان کے لئے ان کی طرف اپنی نسبت کرنا بھی ناجائز  اور سخت  گناہ  کا کام ہے۔اگر غلطی  سے نسبت  ہوگئی  تو  اس سے توبہ استغفار  اور  آیندہ کے لئے  ان کی طرف  نسبت سے  اجتناب  لازم ہے ۔

 اس تمہید کی روشنی میں  صورت مسئولہ میں اگرمرحوم کی  تینوں لڑکیوں  نے مذکورہ  فرقے کے عقائد  میں  سے کسی  عقیدہ  کو اختیار  کیا نہیں  ہے تو محض دیگر  ورثا کو  میراث  سے  محروم کرنے کے لئے   اس فرقے میں نام لکھوانے سے  ان  کو کافر  اوردائرہ اسلام  سے خارج نہیں کہاجائے  گا، نہ  ہی  فسخ  نکاح کا حکم لگایا  جائے گا ۔البتہ عدالت میں جاکر  اس غلط  بیانی  اور جھوٹی قسم کھانے پر  توبہ استغفار لازم ہے ، نیز شریعت  کے مطابق وراثت  تقسیم کر نا   اور مرحوم کے بھائی  بہنوں  کوان کا حصہ  دینا بھی ضروری ہے ۔

تقسیم  کا شرعی طریقہ   یہ ہے کہ

مرحوم کے  انتقال کے وقت  ان کی ملک میں   منقولہ غیر منقولہ جائداد  ،  سونا  چاندی ، نقدی  اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان   تھا   سب  مرحوم  کا ترکہ  ہے۔ اس میں سے سب سے پہلےکفن دفن کا متوسط خرچہ نکالاجائے ،  اس کے بعد اگر   مرحوم کے ذمے کسی  کا قرض ہو تو   اس کو ادا   کیاجائے ، اس کے بعد   اگر مر حوم نےکسی  غیر وارث کے لئے کوئی جائز  وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ، اسکے بعد  مال کو  مساوی  4 2 حصوں میں  تقسیم کرکے   مرحوم کے  بیوہ   کو 3حصے  دیئے  جائیں  گے، مرحوم کی چاروں لڑکیوں میں سے ہر ایک  کو4 حصے  اور   تینوں بہنوں میں سے ہرایک  کو1،1حصہ اور بھائی کو دو حصے دئے جائیں گے۔

 

حوالہ جات
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 197)
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 237)
نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة - رضي الله تعالى عنها - أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن، ولكن لو تاب تقبل توبته۔          

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

۲ربیع الثانی  ١۴۴۳ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب