021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ ترکہ میں اضافے کے بعد تقسیم کےوقت کچھ ورثہ کا زیادہ حصہ لینا
74462میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

تین بھائی پہلوان،فیض محمد اور صالح خان مشترکہ طور پر رہ رہے تھے،تینوں بھائیوں کی اٹھک،بیٹھک،کھانا پینا،کھیتی بھاڑی اور کاروبار مشترک تھا،پہلوان اور اس کے دو بیٹے عبدالرحمن اور عبدالغنی تجارت کرتے تھے،جبکہ باقی دو بھائی فیض محمد اور صالح خان اور ان کے بیٹے حضرت عمر بن فیض محمد،غلام سبحانی اور غلام ربانی کھیتی باڑی اور دیگر گھریلوں کام کاج میں مصروف رہتے تھے،تجارت کے لیے پیسے وغیرہ بھی کھیتی باڑی کی آمدن سے دیتے تھے،کافی عرصے تک اکھٹے کاروبار کرتے رہے۔

جب تینوں بھائی جدا ہونے لگے تو زمین،جائیداد،گھر وغیرہ سارا سامان تین برابر حصوں میں تقسیم کیا،لیکن نقدی اور کاروبار کی رقم بڑے بھائی پہلوان اور اس کے بیٹوں نے جو تجارت کی نگرانی کرنے والے تھے چار حصوں میں تقسیم کردی،دو حصے زبردستی انہوں نے لے لئے اور باقی دو حصے دو بھائیوں فیض محمد اور صالح خان کو دئیے جو انہوں نے مجبوراً بادل ناخواستہ قبول کرلئے،گویا کہ بڑے بھائی پہلوان نے ایک حصہ اپنے حق سے زیادہ وصول کیا۔

لیکن جدا ہوتے وقت چھوٹے دو بھائیوں فیض محمد اور صالح خان نے بڑے بھائی پہلوان اور اس کے بیٹوں سے کہا کہ اگر اللہ نے موقع دیا تو ان شاء اللہ ہم آپ سے شریعت کے مطابق بقیہ حصہ وصول کریں گے،لیکن فیض محمد اور صالح خان نے ابھی اپنا حصہ وصول نہیں کیا تھا کہ پہلوان کا انتقال ہوگیا اور اس کے شرعی ورثہ میں اس کے دو بیٹے عبدالرحمن اور عبدالغنی رہ گئے،جبکہ ان کے علاوہ تین بیٹیاں بھی تھیں۔

پھر فیض محمد اور صالح خان اپنے بھتیجوں یعنی عبدالرحمن اور عبدالغنی سے اپنا حق وصول کئے بغیر وفات پاگئے،پھر فیض محمد مرحوم کےبیٹے حضرت عمر اور صالح خان مرحوم کے بیٹوں غلام سبحانی اور غلام ربانی وغیرہ نے اپنے چچا زاد بھائیوں عبدالرحمن اور عبدالغنی سے اپنے آباء کا حق وصول نہیں کیا،یہاں تک کہ عبدالرحمن اور عبدالغنی بھی یکے بعد دیگرے وفات پاگئے۔

ان دونوں کی کوئی اولاد نہیں ہے،ان کے ورثہ میں صرف ان کی دو دو بیویاں اور دو بہنیں ہیں،ان کے علاوہ فیض محمد اور صالح خان کے بیٹے بھی ان کے ورثہ میں شامل ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ فیض محمد اور صالح خان کے بیٹے یعنی حضرت عمر بن فیض محمد اور غلام سبحانی و ربانی جو صالح خان کے بیٹے ہیں عبدالرحمن اور عبدالغنی کی متروکہ جائیداد سے اپنے آباء کا حق وصول کرسکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعا باپ دادا سے ملنے ترکہ کو اگر ورثہ مشترکہ طور پر کام کرکے بڑھائیں تو وہ ان میں برابر تقسیم ہوتاہے،اگرچہ کسی ایک وارث کی محنت کم اور دوسرے کی زیادہ ہو،اس لیے مذکورہ صورت میں بڑے بھائی پہلوان اور اس کے بیٹوں کا نقدی اور کاروبار کی رقم میں سے اضافی حصہ لینا جائز نہیں تھا،بلکہ بقیہ جائیداد اور سامان کی طرح اسے بھی برابر حصوں میں تقسیم کرنا ضروری تھا،لہذا فیض محمد خان اور صالح خان کے بیٹے عبدالغنی اور عبدالرحمن کی متروکہ جائیداد میں سے اتنی رقم وصول کرسکتے ہیں جو انہوں نے تقسیم کے وقت اضافی وصول کی تھی۔

واضح رہے کہ اگر والد کی وفات کے وقت ان تین بھائیوں کے علاوہ دیگر ورثہ مثلا ان کی بیوی یا بیٹیاں بھی موجود تھے تو انہیں بھی ان کا حصہ دینا ضروری تھا۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (4/ 307):
"مطلب فيما يقع كثيرا في الفلاحين مما صورته شركة مفاوضة :
[تنبيه] يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.
ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا كما أفتى به في الخيرية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/ربیع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب