021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کے گھر کھانے اورتعزیت کاحکم
74465جنازے کےمسائلتعزیت کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص کی وفات پر شرعا کتنے دن تک تعزیت کی گنجائش ہے؟اگر کوئی شخص ان محدود ایام میں تعزیت  نہیں کرسکا، تو کیا بعد میں تعزیت  کی گنجائش ہے؟

ہمارے علاقے میں  رواج ہے کہ میت والے گھر میں کھانا کھلایا جاتاہے ،کیا ایسے موقع پر کھاناکھاناجائز ہے؟اسی طرح میت کے جوقرابت دار دور دراز سے آتے ہیں ان کے لیے کیا حکم ہے ؟

اگر کھانے کا انتظام میت کےاہل خانہ کی طرف سے نہ ہو بلکہ مروجہ کمیٹی، اہل محلہ یا عزیز   رشتہ داروں کی طرف سے ہو،تو ایسی  صورت میں کھانے کاکیا حکم ہے؟

ہمارے ہاں ایک رواج  یہ بھی عام ہے کہ میت والے گھر میں عزیز  رشتہ دار اور اڑوس پڑوس کے لوگ تین دن تک مسلسل آتے رہتے ہیں، جب بھی کوئی  شخص آتا ہے  تو کچھ دیر بیٹھنے  کے بعد خود ہاتھ اٹھاتا ہے دعا کے لیے،اورزور سے کہتاہے کہ میت کے لیے دعا کریں ،چنانچہ  سب لوگ  مل کر ہاتھ  اٹھاتے ہیں اور یوں میت کے لیے  دل ہی دل میں اجتماعی دعا ہوتی ہے۔یہ سلسلہ ہر شخص کے آنے  اور جانے کے وقت جاری رہتا ہے۔اور تیسرے دن باقاعدہ اجتماعی دعا ہوتی ہے،اس سب کا حکم کیا ہے، نیز باربار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تعزیت  میت کے اہل خانہ کو تسلی دینے کا نام ہےیہ تین دن کے اندر مسنون ہے۔ بلاعذرتین دن کے بعد تعزیت ناپسندیدہ عمل ہے۔ جو شخص ایک دفعہ تعزیت کر لے ، اس کا دوبارہ تعزیت کے  لیے جانا سنت نہیں۔دور کے لوگ یا جو اس وقت موجود نہ ہو وہ بعد  میں بھی تعزیت کر سکتے ہیں۔

جس  گھر میں فوتگی ہو جائے وہاں چولہا جلانے کی  توکوئی ممانعت   نہیں ،البتہ میت کے گھر والے صدمے کی وجہ سے  کھاناپکانے کا اہتمام نہیں کر پاتے  اس لیے عزیز واقارب ،یا ہمسایوں کو چاہیے کہ میت کے گھر کھانا پہنچائیں اور ان کو کھلانے کی کوشش کریں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا  زاد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پراپنے لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ اہل جعفر کے لیے کھانے کا اہتمام کرو ۔

میت کے گھر میں کھانے کانظم   قرابت دارں  ،محلے دارں یا  ہمسایوں کی طرف سے  صرف قریبی  رشتہ داروں کے لیے ہوتا ہے  ۔ جوصدمے کی حالت میں ہیں یا مسافر ہونے کی وجہ سے کھانے کا نظم بنانے سے قاصر ہوں۔ لہذا دیگر لوگوں کواس سے احتراز کرنا چاہیے۔                             

میت کے لیے ایصال ثواب   تو مستحب ہے اس کے لیے میت کے گھر جانالازمی نہیں ،اپنے گھر  پر بھی کرسکتے ہیں ۔نہ  اس کے لیے کسی وقت کی قید ہے بلکہ ہر وقت  ایصال ثواب کیا جاسکتا ہےالبتہ اس طرح دعا ءخیر کی پابندی کروانا کہ  ہر آنے جانے پر ہاتھ اٹھانا،اجتماعی دعاکرنا اورجونہ  کرے اس کو مطعون کرناجیساکہ آج کل رواج ہوگیا ہے بدعت  اور واجب الترک ہے۔

حوالہ جات
التعزیۃ لصاحب المصیبۃ حسن کذا فی الظھیریہ ور  ی الحسن بن زیاد إذا عزی أھل المیت  مرۃفلا ینبغی أن یعزیہ مرۃ أخری کذا فی المضمرات ووقتھا من حین یموت إلی ثلاثۃ أیام ویکرہ بعدھا إلا أن یکون  المعزی إلیہ غائبا فلابأس بہ وھی بعد الدفن أولی وھذا إذا لم یر منھم جزع شدید فإن روی ذلک قدمت التعزیۃ،ویستحب أن یعم بالتعزیۃ جمیع أقارب المیت الکبار والصغار والرجال والنساء الاأن یکون إمرۃ شابۃ فالایعزیھاإلامحارمھاکذافی السراج الھاج:(عالمگیری:1/147)
عن أبی ھریرۃ قال:قال  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ:(مشکاۃ المصابیح:368)
قولہ وباتخاذ الطعام لھم قال فی الفتح:ویستحب لجیران أھل المیت والأقرباء الإعداد تھیئۃ طعام لھم یشبعھم یومھم ولیلتھم لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: اصنعوالآل جعفرطعاما،فقدجاءھم مایشغلھم:(ردالمحتار:2/240)                    
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت لأنہ شرع فی السرور لا فی الشرور وھی بدعۃمستقبحۃ:(ردالمحتار:2/240)
عن جریر بن عبداللہ  البجلی رضی اللہ عنہ قال: کنا نری الاجتماع إلی أھل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ:(ابن ماجۃ:116،مسند احمد:2/204)ویکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ھذہ  الایام وکذا کلھا کما فی حیرۃ الفتاوی :(جامع الرموز:3/443)

سہیل جیلانی

دارالافتاء، جامعۃ الرشید،کراچی

07/ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سہیل جیلانی بن غلام جیلانی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب