74522 | پاکی کے مسائل | نجاستوں اور ان سے پاکی کا بیان |
سوال
سائل نے اپنے دائیں ہاتھ پر رنگ ریزی سے پختہ نام لکھوایا ہے ، "waso" سائل کا اصل نام سید عبد الواسط شاہ ہے، گھر اور دوستوں میں "واسو"پیار سے بولتے ہیں اس وجہ سے نام لکھوایا ۔ اس سے وضو اور نماز جائز ہے یا نہیں ؟ یا کوئی اور حل ہے؟
o
جسم گدواکر اس پر کچھ بھی لکھنا یا لکھوانا یا نقش ونگار بنوانا جائز نہیں ہے۔ اس میں اپنے آپ کو ایذا و تکلیف دینا بھی ہے، نیز اس میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بگاڑنا بھی ہے، حدیث میں جسم گدوانے والوں پر لعنت آئی ہے۔ اگر ایسے رنگ سے نام لکھوایا جس کی تہہ نہیں بنتی اور مہندی کی طرح جسم کا حصہ بن جاتا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل درست ہوجائے گا ،اور اگر ایسے رنگ سے نام لکھوایا جس کی جسم کے اوپر تہہ بن جاتی ہو تو وضو اور غسل کے وقت اس کو صاف کرنا ضروری ہے ، اس کے ہو تے ہوئے وضو اورغسل صحیح نہ ہوگا ۔البتہ اگر یہ ایسا دائمی رنگ ہو جو کسی صورت میں نکل نہ سکتا ہو تو اس صورت میں مجبوری کی وجہ سے وضو اور غسلِ واجب درست شمار ہو گا۔
حوالہ جات
عن ابن عمر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الواصلة، والمستوصلة، والواشمة، والمستوشمة.(صحیح البخاري:7/167)
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ علیہ:(وأما) ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة.
(بدائع الصنائع:1/34)
وفی الفتاوی الھندیۃ :وإن كان على ظاهر بدنه جلد سمك أو خبز ممضوغ قد جف فاغتسل ولم يصل الماء إلى ما تحته لا يجوز.( الفتاوی الھندیۃ :1/13)
وفی الفتاوی الھندیۃ :وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلا عن الجامع الأصغر.( الفتاوی الھندیۃ :1/4)
محمد طلحہ شیخوپوری
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
7 ربیع الثانی/1443ھ
n
مجیب | محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |