021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوطلاق کےبعدبیوی کوکہامیں تمہیں چھوڑرہاہوں توکیاحکم ہوگا؟
74470طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرامسئلہ یہ ہےکہ میری شادی کو6سال ہوگئےہیں،میں نےاپنی بیگم کوشادی کےدوسرےسال وقفہ وقفہ سےدودفعہ طلاق دی تھی اورکہاتھا"میں تمہیں طلاق دیتاہوں" پھرہم نے رجوع کرلیاتھا،ابھی میں اپنی بیگم کوان کےوالدین کےگھربھیجناچاہتاتھا،کیونکہ وہ پریگنینسی(حمل) میں تھی اوربیگم جانانہیں چاہتی تھی،اسی بحث میں  میں نے3سے4باریہ کہہ دیاکہ "میں تمہیں چھوڑرہاہوں"مگرمیری نیت اس مرتبہ تیسری طلاق دےکراپناگھرختم کرنےکی بالکل نہیں تھی توکیاتیسری طلاق واقع ہوگئی،اگرطلاق ہوگئی ہےتواس کاکوئی کفارہ ہے؟کیونکہ میری 2چھوٹی بیٹیاں ہیں بہت پریشان ہوں، بیوی بچوں کوساتھ رکھناچاہتاہوں،برائےمہربانی کوئی حل نکالیں۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"میں تمہیں چھوڑرہاہوں"حال کےلیےاستعمال ہوتاہے،"میں نے تمہیں چھوڑدیایامیں تمہیں چھوڑرہاہوں"کالفظ ہمارے عرف میں صریح طلاق کےلے استعمال ہوتا ہے،لہذاان الفاظ سےقرائن ہونےکی صورت میں بغیرنیت  کےبھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

صورت مسئولہ میں چونکہ شوہرنےمذکورہ الفاظ تین چاردفعہ کہے،اوراس سےپہلےبھی دوطلاق رجعی واقع ہوچکی ہیں،اس لیےموجودہ صورت میں"میں تمہیں چھوڑرہاہوں"کےلفظ سے بیوی پرتین طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہیں،میاں بیوی میں فوراجدائی ضروری ہوگی،جدائی کےبعدمیاں بیوی کےدرمیان  دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتاجب تک حلالہ نہ ہوجائے۔

حلالہ کی صورت یہ ہوگی کہ یہ عورت عدت گزارکر کہیں اورنکاح کرےپھردوسراشوہرہمبستری بھی کرلےاورطلاق دیدےیافوت ہونےکی صورت میں عدت وفات گزارلےتواس صورت میں بیوی پہلےشوہرکےلیےحلال ہوسکتی ہے۔

طلاق مغلظہ کےبعدشرعاالگ سےکوئی کفارہ نہیں ہے۔

حوالہ جات
" حاشية رد المحتار" 3 /  329:
قال رها كردم أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لانه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن لولا ذلك لوقع به الرجعي۔۔۔۔۔۔۔۔
وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك، ومثله ما قدمناه في أول باب الصريح من وقوع الرجعي بقوله: سن بوش أو بوش أو في لغة الترك مع أن معناه العربي أنت خلية، وهو كناية، لكنه غلب في لغة الترك استعماله في الطلاق۔
"رد المحتار"10 /  500:
باب الصريح ( صريحه ما لم يستعمل إلا فيه ) ولو بالفارسية ( كطلقتك وأنت طالق ومطلقة )
"رد المحتار"11 /  01:
( قوله ولو بالفارسية ) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية ، وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر ۔
"ھدایۃ " 2 /378:
وان کان الطلاق ثلاثافی الحرۃ الخ لاتحل لہ حتی تنکح زوجاغیرہ نکاحاصحیحاویدخل بہاثم یطلقہاأویموت عنہا۔
"صحيح البخاري '7 / 439 :
عن عائشة قالت طلق رجل امرأته فتزوجت زوجا غيره فطلقها وكانت معه مثل الهدبة فلم تصل منه إلى شيء تريده فلم يلبث أن طلقها فأتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن زوجي طلقني وإني تزوجت زوجا غيره فدخل بي ولم يكن معه إلا مثل الهدبة فلم يقربني إلا هنة واحدة لم يصل مني إلى شيء فأحل لزوجي الأول فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تحلين لزوجك الأول حتى يذوق الآخر عسيلتك وتذوقي عسيلته۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

09/ربیع الثانی  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب