021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں بیٹے کو ہبہ کردہ جائیداد سے بیٹیوں کے حق وصولی کا حکم
74469میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام دریں مسئلہ کہ ہمارے نانا ابو نے  آج سے تقریبا 45سال قبل اپنی تمام جائیداد اپنے بیٹے (یعنی ہمارے ماموں) کے نام ہبہ کردی ، یہ تقریبا 35 کنال جگہ بنتی ہے، ماموں نے اپنے والد کی زندگی میں اس ساری جگہ پر قبضہ بھی کرلیا ،اور نانا ابو نے یہ ہبہ اپنی صحت کے زمانے میں کیا تھا اور اس کے بعد نانا ابو 25سال زندہ رہے۔

نانا ابو کی تین بیٹیاں تھیں،جن کو نانا ابو نے محروم رکھا، ماموں نے جائیداد  پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے والد کو گھر سے بھی نکال دیا ، جس کی وجہ سے نانا ابو اپنی چھوٹی بیٹی (یعنی ہماری خالہ ) کے گھر شفٹ ہوگئے ،اور وفات تک وہیں مقیم رہے،خالہ کے گھر سے ہی ان کا جنازہ بھی نکلا۔

نانا ابو کے ہبہ والے اس عمل پر ان کی تینوں بیٹیاں ہمیشہ نالاں رہیں، کچھ عرصہ قبل ہمیں پتہ چلا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ایسےتمام مقدمات کے فیصلوں میں  ایسی ہبہ شدہ  زمینوں  کے ہبہ کو کالعدم قرار دے رہی ہے جن میں  عورتوں کو قصدا میراث سے محروم رکھاگیا ہے ،اور بیٹیوں کو ان کے حصے دینے کی احکام جاری کررہی ہے ۔

چنانچہ مذکورہ تینوں بہنوں نے بھی  اس جائیداد میں بھائی سے اپنا حصہ لینے کے لئے مقدمہ کردیا ،یہ مقدمہ اس وقت عدالت میں  زیرسماعت ہے۔

سوال یہ ہے کہ :

(۱)نانا ابوکا اپنی بیٹیوں کو محروم کرنا اور صرف اپنے بیٹے کو نوازنا شرعا جائزتھا؟

(۲)اِس وقت اُس زمین کی مالیت کروڑوں میں ہے،جب کہ تین بہنوں میں سے دوبہنوں نے زندگی کا بیشتر حصہ غربت اور بیوگی میں گزارا ہے ،ایسے حالات میں ہمارے لئے یہ مقدمہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(۳)سپریم کورٹ اگر ہمارے حق میں فیصلہ کردیتی ہے تو کیا ہمارے لئے اس زمین میں حصہ لینا شرعا جائز ہوگا؟

(۴)اگر ہم مقدمہ واپس لے کر ماموں سے صلح کرلیں (جیساکہ ان کامطالبہ بھی ہے) اور صلح کے عوض پیسے لے لیں تو کیا اس طرح پیسے لینا ہمارے لئے ٹھیک ہے؟

(۵) اگر احناف کے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہے تو کیا دیگر ائمہ ثلاثہ کے ہاں کوئی رعایت ملتی ہے؟اگر ملتی ہے تو ہم اس پر عمل کرکےزمین واپس لے سکتے ہیں؟۔

امید ہے کہ جلداز جلد تفصیلی جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع دیں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرچہ نانا کایہ طرزعمل شریعت کےخلاف تھا،لیکن اس طرح ہبہ کرنے سے اور بیٹے کے قبضہ کر لینے سے وہ  شرعا اس کا مالک ہوچکا ہے،لہذاان کے خلاف کیس کرنا یاان سے کسی عوض کے بدلے صلح کی شرط پر مقدمہ سے دستبرداری  کی پیشکش جائز نہیں،اسی طرح مقدمہ کی بنیاد پر حکومت کے اس طرح ہبہ مکمل ہونے کے بعد متعلقہ ورثہ کو انکے حصے دلانا جائز نہیں،نیز قانون کا تعلق حق وراثت سے محرومی سے ہے،جبکہ زیر نظر مسئلہ میں وراثت نہیں ،اس لیے کہ باپ بیٹے کو زندگی میں حصہ دے کر قبضہ دے چکا ہے،البتہ اگرآپ کےماموں اپنےوالد صاحب کی اور اپنی اخروی گرفت کے پیش نظر اس خلاف شریعت عمل پر از خود رد عمل دیتے ہوئے اپنی بہنوں کو ان کے حصے دیں یا بطور صلح ان کی رضامندی سےجائیداد میں سے ان کے حصہ کے بقدر  حصہ کاعوض دے دیں تویہ نہ صرف یہ کہ جائزہے،بلکہ ایک طرح سےیہ ان پرازروئے دیانت واخلاق لازم بھی ہے۔

(ماخوذ ازکفایۃ المفتی:ج۸،ص۱۶۳)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۹ربیع الثانی۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب