021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرداساتذہ کا لڑکیوں کو اور خواتین اساتذہ کا لڑکوں کو پڑھانا
74533علم کا بیانعلم کے متفرق مسائل کابیان

سوال

آج کل پرائیویٹ  اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم ہے،مرد اساتذہ لڑکیوں کو اور خواتین اساتذہ لڑکوں پڑھاتی ہیں،پوچھنا یہ ہے کہ مرد اساتذہ لڑکیوں کو اور خواتین اساتذہ کا لڑکوں کو شرعا کتنی عمر تک پڑھانا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ابتدائی عمر جس میں بچے صنفی جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ان میں ایسے احساسات پیدا نہیں ہوتے،مخلوط تعلیم کی گنجائش ہے،اسی لیے اسلام نے بے شعور بچوں کو غیر محرم عورتوں کے پاس آمدورفت کی اجازت دی ہے،جیسا کہ سورة النور آیت نمبر 58 میں اس کی تصریح موجود ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (58) } [النور: 58]

ترجمہ اے ایمان والو جو غلام لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہیں اور تم میں سے جو بچے ابھی بلوغ تک نہیں پہنچے ان کو چاہیے کہ وہ تین اوقات میں تم سے اجازت لیا کریں نماز فجر سے پہلے اور جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتار کر رکھا کرتے ہو اور نماز عشاء کے وقت،ان اوقات کے علاوہ نہ تم پر کوئی تنگی ہے،نہ ان پر،ان کا بھی تمہارے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے،تمہارا بھی ایک دوسرے کے پاس،اسی طرح اللہ تعالی آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے،حکمت کا بھی مالک۔

لیکن جب بچوں میں جنسی شعور پیدا ہونے لگے اور کلی طور پر نہ سہی ایک حد تک بھی جب ان میں صنفی جذبات  کی پہچان ہوجائے تو پھر شریعت کی رو سے نامحرم مرد و عورت کا ایک ساتھ مل بیٹھنا تو دور کی بات ہے،انہیں ایک دوسرے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے سے بھی منع کیا گیا،جس پر قرآن و حدیث کے بے شمار دلائل موجود ہیں جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

۔ سورة احزاب  آیت59 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (59)} [الأحزاب: 59]

ترجمہ: اے نبی تم اپنی بیویوں،اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے منہ کے اوپر جھکا لیا کریں،اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔

2۔سورہ نور آیت 30اور31 میں اللہ تعالی نے مردوں اور عورتوں دونوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے،چنانچہ ارشادی باری تعالی ہے:

{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ } [النور: 30، 31]

ترجمہ :مؤمن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں،یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے،وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں،اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔

3۔سورہ احزاب آیت نمبر 53 میں مردوں ضرورت کے موقع پر عورتوں سے پردے کی آڑ میں بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے

{وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ } [الأحزاب: 53]

ترجمہ:اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو،یہ طریقہ تمہارے دولوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔

احادیث:

صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے:" میں نے رسول اللہ سے اچانک نظر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے مجھے نظر پھیرنے کا حکم دیا۔"

اسی طرح سنن ابی داود کی ایک روایت ہے :"آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ پہلی بار نظر پڑنے کے بعد دوبارہ نہ دیکھو،کیونکہ دوسری بار دیکھنے کی شرعا گنجائش نہیں ہے"۔

نیزصحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو کہ ایک بابینا صحابی تھے کو دیکھنے سے بھی منع فرمایا،حدیث ملاحظہ ہو:

"صحيح مسلم "(2/ 1114):

"عن أم سلمة أنها كانت هي وميمونة عند النبي صلى الله عليه و سلم فد خل ابن أم مكتوم فقال النبي صلى الله عليه و سلم: " احتجبا منه فقالتا إنه أعمى لا يبصر فقال النبي صلى الله عليه و سلم أفعمياوان أنتما ؟ أليس تبصرانه ؟ ".

ترجمہ: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت بیان فرماتی ہےکہ میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے پاس تھیں ،اسی اثنا میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہوئےتوآپ ﷺنے فرمایا:" تم دونوں چھپ جاو(پردہ کرو) ،ان دونوں نے کہاوہ تو نابینا ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تم دونوں بھی اندھیاں ہو؟ کیا تم دونوں ان کو نہیں دیکھ رہیں"

لہذا مرد اساتذہ کا بالغ یا قریب البلوغ لڑکیوں کو پڑھانا،اسی طرح خواتین اساتذہ کا بالغ یا قریب البلوغ لڑکوں کو تعلیم دینا  اصولی طور پر شرعا ناپسندیدہ ہے،لیکن چونکہ آج کل مخلوط نظام تعلیم کا رواج ہے اور کالج و یونیورسٹیوں میں لبرل و سیکولر ذہن رکھنے والے اساتذہ طلبہ کو فکری اور عملی لحاظ سے دین سے متنفر اور دین بیزار بنارہے ہیں،اگر دینی ذہن رکھنے والے اساتذہ وہاں نہیں جائیں گے تو ان کے باطل نظریات کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی نہ ہوگا،جیسا کہ آج کل  اکثر یونیورسٹیوں میں ہوبھی رہا ہے،اس لیے اس اہم ضرورت کے مدنظر  اگر کوئی مرد یا عورت کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھارہا ہو تو درج ذیل شرائط کی سختی سے پابندی کے ساتھ اسے پڑھانے کی گنجائش ہوگی:

1۔نیت یہ ہو کہ اس ادارے کے ماحول کو دینی لحاظ سے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔

1۔ممکن ہو تو لڑکوں کو لڑکیوں سے الگ ایک طرف بٹھایاجائے اور لڑکیوں کو برقع کا پابند بنایا جائے،ورنہ کم از کم اسکارف یا حجاب کا پابند بنایا جائے۔

2۔مرد ہو تو توجہ لڑکوں کی طرف رکھے اور عورت ہو تو توجہ لڑکیوں کی طرف رکھے۔

3۔درسگاہ سے باہر بلاضرورت نامحرموں سے بات چیت نہ کرے۔

4۔لڑکیوں کو پردے کی ترغیب دی جاتی رہے اور حتی الامکان دینی لحاظ سے طلبہ کی ذہنی،فکری اور عملی تربیت کی کوشش جاری رکھی جائے۔

5۔کسی بھی نامحرم سے تنہائی میں ملاقات نہ کرے،چاہے تعلیم کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے،کیونکہ تیسرا وہاں شیطان ہوتا ہے۔

تاہم اگر کسی کا ذہن پختہ اور طبیعت قوی نہ ہو اور ایسے اداروں میں پڑھانے سے اس کے کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتو پھر ایسے شخص کے لیے مخلوط نظام تعلیم والے ادارے میں پڑھانا جائز نہ ہوگا۔

حوالہ جات
"صحيح مسلم" (3/ 1699):
"عن جرير بن عبد الله، قال: «سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نظر الفجاءة فأمرني أن أصرف بصري»".
"سنن أبي داود" (2/ 246):
"عن ابن بريدة، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: «يا علي لا تتبع النظرة النظرة، فإن لك الأولى وليست لك الآخرة»".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/ربیع الاول1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب