021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نابالغ ورثاء کے حصہ سمیت مشترکہ زمین فروخت کرنا
74506خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

شیر غلام کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل تھیں، سب سے بڑے بیٹے کی عمر نو سال اور بیٹی کی عمر سات سال تھی، متوفیٰ کی ملکیت میں ایک ذاتی نو مرلہ کا پلاٹ تھا، اس کے علاوہ ایک رہائشی گھر جو وراثتی طور پر مشترک تھا، متوفی کے بھائی عبدالرحمن نے اپنی ذاتی ضرورت کے لیے اپنا وراثتی حصہ اپنے بڑے بھائی سیف الرحمن کو بیچنا چاہا، تو سیف الرحمن نے بیوہ سے بھی اس کا حصہ لینے کا اصرار کیا، لیکن بیوہ بارہا اس بات پر مصر تھی کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں، جب بچے بڑے ہو جائیں تو آپ کو بیچ دیں گے، لیکن سیف الرحمن نے زبردستی خود سے پچاس ہزار روپیہ قیمت مقرر کرکے بیوہ کے حوالے کر دی، بیوہ نے لاچارگی کے عالم میں اپنا روپیہ سیف الرحمن کے پاؤں پر ڈال دیا کہ مجھے مجبور نہ کریں، میں اپنا حصہ لکھ کر دینے پر راضی نہیں ہوں، لیکن زبردستی متوفٰی کے بیٹے شفیق الرحمن اور بیوہ سے دستخط کر والیے گئے اور ہمشیرگان کے جعلی دستخط خود سے کر لیے۔

واضح رہے کہ اس وقت دانش کی عمر صرف دس سال تھی نیز دانش اور بیوہ کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ہم وراثتی مکان لکھ کر دے سکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ خاتون نے مجبوراً دستخط کیے تھے کہ کہیں یہ شخص گھر سے نہ نکال دے اور اس نے مرحوم کے حصہ کے پینتیس ہزار روپے خاتون کو دیے تھے وہ بھی اس نے مجبوراً قبول کیے تھے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہٴ کار نہ تھا۔ البتہ اس کے بعد وہ خاموش ہو گئی تھی اور کہتی تھی کہ جب میں زمین اس کے نام کروا چکی ہوں اور مجھ سے لکھوا لیا گیا ہے، اس لیے وہ اقرار کرتی تھی کہ ہاں میں زمین اس کو بیچ چکی ہوں، اس  خريدفروخت کو پچیس سال گزر چکے ہیں، اب جب مرحوم کے بچے جوان ہوئے ہیں تو وہ اپنے حصے کی زمین کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہماری اجازت کے بغیر زمین بیچی گئی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید دواصول سمجھنا ضروری ہیں:

پہلا اصول: فقہائے کرام رحمہم اللہ نے جبر اور اکراہ کی بنیاد پر کی گئی خریدوفروخت کو فاسد یعنی ناجائز اور متاٴثرہ فریق کی رضامندی پر موقوف قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مجبور کرنے والے فریق کی طرف سے زور اور زبردستی ختم ہو جانے کے بعد مالک کو اختیار ملے گا کہ وہ اگر چاہے تو اس خریدوفروخت کو نافذ قرار دیدے اور اگر چاہے تو اس کو فسخ(Cancel) کردے اور اپنی چیز واپس لے لے، کیونکہ خریدوفروخت کا معاملہ ان عقود میں سے ہے جو مالک کی رضامندی پر موقوف ہوتے ہیں۔  

دوسرا اصول: دوسری بات یہ کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یتیم بچوں کے مال کی ولایت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری صرف باپ اور دادا یا ان کے وصی کو دی ہے اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر قاضی اس کے مال کا ولی شمار کیا گیا ہے، نیز بچے کی زمین بیچنے کا اختیار ان کو بھی بٕعض مخصوص صورتوں میں حاصل ہے، جن میں بچے کی ضرورت اور مصلحت پیشِ نظر ہو۔ لہذا عام حالات میں بچے کی زمین بیچنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ رہائشی گھر میں مرحوم کا مشترکہ حصہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثہ کی طرف منتقل ہو گیا تھا، اس لیے مذکورہ زمین میں مرحوم کے یتیم بچوں کا بھی حصہ تھا اور تمہید میں ذکر کیے گئے اصول کے مطابق ماں کو بچے کی زمین بیچنے کا اختیار حاصل نہیں، لہذا مرحوم کے بھائی سیف الرحمن کا یتیم بچوں اور بیوہ کے وراثتی حصہ کی زمین زبردستی از خود قیمت لگا کر خریدنا ہرگز جائز نہیں تھا، خصوصاً جبکہ سوال میں تصریح کے مطابق بیوہ بار بار کہہ رہی تھی کہ "میں نہیں بیچنا چاہتی، جب بچے بڑے ہو جائیں گے تو آپ کو بیچ دیں گے" اور اس نے زمین کے پیسے بھی سیف الرحمٰن کے سامنے ڈال دیے تھے کہ مجھے مجبور نہ کریں، اس کا مطلب یہ کہ بیوہ سے اس کا اور اس کے یتیم بچوں کا حصہ زبردستی خریدا گیا ہے، نیز بیوہ کا  زمین  کے پیسے لینے کو بھی رضامندی قرار نہیں دیا جا سکتا،  کیونکہ یہ پیسے بھی اس کو مجبوراً لینے پڑے تھے، کیونکہ اگر وہ نہ لیتی تو اس کو گھر سے نکالے جانے کا خطرہ تھا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ایسی چیز کو بھی اکراہ میں شامل کیا ہے جس سے آدمی رضامندی ختم ہو جائے۔

لہذا اس تمام صورتِ حال کے پیشِ نظر یتیم بچوں کے شرعی حصوں کے برابر یہ خریدوفروخت بالکل درست اور منعقد نہیں ہوئی، جہاں تک بیوہ کے حصے کا تعلق ہے تو اس کے حصہ کی خریدوفروخت اس کی رضامندی پر موقوف تھی، یعنی سیف الرحمن کی طرف سے دباؤ اور زبردستی ختم ہوجانے کے بعد اگر وہ چاہتی تو اس کو درست اور نافذ قرار دے دیتی اور اگر چاہتی تو اس کو ختم کر دیتی، مگر چونکہ بیوہ نے سیف الرحمن سے پیسے لے لیے تھے اور زمین بھی اس کے نام کروا دی تھی، اس کے بعد سوال میں تصریح کے مطابق وہ خاموش ہو گئی تھی اور اقرار کرتی تھی کہ ہاں میں زمین اس کو بیچ چکی ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ بعد میں بیوہ  اس خریدوفروخت کو نافذ قرار دینے پر بظاہر رضامند ہو گئی تھی،  اس لیے اس کے حصہ کی خریدوفروخت شرعاً درست ہو گئی ہے، لیکن یتیم بچوں کے حصہ میں والدہ کی رضامندی اور اجازت کا اعتبار نہیں، اس لیے یہ خریدوفروخت بالکل منعقد نہیں ہوئی اور ان کے بالغ ہونے کے بعد نئے سرے سے بھی خریدوفروخت نہیں کی گئی، اسی لیے وہ اب بالغ ہونے کے بعد اپنے حصوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، لہذا مشترکہ رہائشی گھر میں یہ بچے بدستور اپنے شرعی حصہ کے مطابق مالک اور اپنے حصہ کے مطالبہ میں حق بجانب ہیں، لہذا سیف الرحمن پر لازم ہے کہ وہ ان بچوں کا شرعی حصہ ان کے سپرد کرے یا ان کی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر ان سے وہ حصہ خرید لے، اس کے علاوہ ان بچوں کی والدہ نے جو پینتیس ہزار روپے وصول کیے تھے، اس میں سے ان بچوں کے حصہ کی زمین کے برابر لی گئی رقم سیف الرحمن کو واپس کرنا ضروری ہے۔ نیز یہ رقم واپس کرنے میں موجودہ قیمت کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ قبضہ کرتے وقت جس حساب سے یہ قیمت ادا کی گئی تھی اسی حساب سے اب واپس کی جائے گی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 130) دار الفكر-بيروت:
أن الإكراه الملجئ، وغير الملجئ يعدمان الرضا، والرضا شرط لصحة هذه العقود وكذا لصحة الإقرار فلذا صار له حق الفسخ والإمضاء ثم إن تلك العقود نافذة عندنا (و) حينئذ (يملكه المشتري إن قبض فيصح إعتاقه) وكذا كل تصرف لا يمكن نقضه (ولزمه قيمته) وقت الإعتاق ولو معسرا، زاهدي لإتلافه بعقد فاسد.
 (فإن قبض ثمنه أو سلم) المبيع (طوعا) قيد للمذكورين (نفذ) يعني لزم لما مر أن عقود المكره نافذة عندنا، والمعلق على الرضا والإجازة لزومه لإنفاذه إذ اللزوم أمر وراء النفاذ كما حققه ابن الكمال.
جامع الفصولين (2/ 9):
"وليس لغير أبيه وجده ووصيهما التصرف في ماله، وكذا لو وهب له فلمن هو في حجره قبضه لا إنفاقه عليه، لما مر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6/ 714) دار الفكر-بيروت:
"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".
 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 129) دار الفكر-بيروت:
(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 76):
"(الولي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه) ...... (قوله: لا المال) فإن الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه". فقط۔
فقہ البیوع  (ج:1ص:197) مكتبة معارف القران كراتشي:
والواقع عند الحنفية يدخلون بيع المكره في بيع فاسد وموقوف قال ابن عابدين رحمه الله وأفاد في المنار وشرحه أنه ينعقد فاسدا لعدم الرضا الذي هو شرط النفاذ وأنه بالإجازة يصح ويزول الفساد۔۔۔۔۔۔ومفاد كونه فاسدا عند الحنفية لا باطلا أن المشتري يملكه إن قبض فيصح منه كل تصرف لا يمكن نقضه مثل الإعتاق والتدبير والاستيلاد ولكن لا يصح ما يقبل النقض مثل البيع والهبة والتصدق ومفاد كونه موقوفا أنه ينقلب نافذا بإجازة المكره سواء أكانت الإجازة بالقول أم بالفعل مثل قبض الثمن وتسليم المبيع بشرط أن يكون في حالة التطوع بعد زوال الأكراه۔اھ

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

14/ربيع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب