021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغ اور نابالغ ورثاء کے حصہ سمیت مشترکہ زمین فروخت کرنا
74507خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

2001ء میں سیف الرحمن کے دوست محمد فاروق نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا چاہا تو سیف الرحمن نے اپنے بھتیجے متوفی کے بیٹے شفیق الرحمن کو فاروق کے ساتھ کاروبار میں شریک کر لیا، اس شرط کے ساتھ کہ سرمایہ فاروق کا ہو گا اور محنت شفیق الرحمن کی ہو گی اور منافع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو گا، اسی دوران فاروق نے سیف الرحمن کے نام پر بینک سے قرض لیا، جس سے سیف الرحمن لاعلم تھا، سیف الرحمن نے اپنی خلاصی کے لیے پلاٹ جو متوفٰی کے نام پر تھا، بیوہ اور شفیق الرحمن سے دستخط کروا کر اپنے نام کروا لیا اور پلاٹ کی قیمت اپنی خلاصی کے لیے بینک میں جمع کروا دی اور بقیہ رقم شفیق الرحمن کے حوالہ کر دی،سوال یہ ہے کہ جب متوفی کے ورثاء میں  ایک وارث نابالغ تھا اور باقی ورثاء کو اس خریدوفروخت کا علم ہی نہیں تھا تو کیا یہ خریدوفروخت درست ہے؟نیزشفیق الرحمن اس وقت بالغ تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں محمدفاروق کا سیف الرحمن کے نام پر بینک سے قرض لینا ہرگز جائز نہیں تھا، اس میں جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا گیا ہے، جس پر شخصِ مذکور کو اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا اور آئندہ کے لیے اس طرح کی حرکت سے اجتناب کرنا  لازم ہے ، نیزچونکہ اس نے اپنی ذات کے لیے قرض لیا تھا، اس لیے بینک سے لیے گئے قرض کی ادائیگی شرعی اعتبار سے محمدفاروق پر ہی لازم ہو گی، دوسرے شخص کا نام استعمال کرنے سے شرعی حکم پر اثر نہیں پڑے گا۔

اس کے بعد سیف الرحمن کا اپنے مرحوم بھائی کا پلاٹ بیوہ اور شفیق الرحمٰن سے دستخط لے کر اپنے نام کروانا بھی جائز نہیں تھا، کیونکہ اس پلاٹ میں دیگر ورثاء کا بھی حصہ تھا، جن کو اس خریدوفروخت کا کوئی علم نہیں تھا، نیز نابالغ وراث کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں، لہذا اب حکم یہ ہے کہ اگر بیوہ اور شفیق الرحمن نے اپنی رضامندی سے اس پلاٹ کی خریدوفروخت کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں تو یہ خریدوفروخت صرف ان دو کے وراثتی حصہ میں نافذ ہوئی ہے، باقی تین بالغ  ورثاء  (جن کو اس خریدوفروخت کا علم نہیں تھا) کے حصے کی خریدوفروخت پر غصب کے احکام جاری ہوں گے، کیونکہ کسی کی کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا شرعاً غصب ہے اور غصب شدہ چیز کی خریدوفروخت مالک کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، لہذا مذکورہ تین بالغ ورثاء کے حصوں  کی خریدوفروخت ان کی اجازت پر موقوف ہے،  اگر وہ اجازت دیدیں تو خریدوفروخت نافذ ہو جائے گی اور خریدار کے ذمہ زمین پر قبضہ کے دن کی بازاری قیمت (Market Value) واجب ہو گی، خریدوفروخت کے وقت طے شدہ قیمت کا اعتبار نہیں ہو گا اور اگر وہ اس خریدوفروخت کو فسخ کر دیں تو ان کو اپنے حصہ کی زمین واپس لینے کا حق حاصل ہو گا۔

بچے کے مال میں چونکہ صرف باپ، دادا اور ان کے وصی کو ولایت حاصل ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں چونکہ اس وقت بچے کےباپ اور دادا دونوں حیات نہیں تھے، جن کی اجازت پر اس خریدوفروخت کو موقوف قرار دیا جا سکتا،ان کے علاوہ والدہ اور بھائی کو اس کی زمین بیچنے کا شرعاً اختیار نہیں دیا گیا، اس لیے نابالغ بچے کے وراثتی حصہ کے بقدر یہ خریدوفروخت نافذ نہیں ہوئی، لہذا اس کے حصہ کی زمین واپس کرنا ضروری ہے، اگرسیف الرحمٰن بچے کا حصہ واپس نہ کرے گا تو وہ سخت گناہ گار ہو گا اور اگر واپس کرنا مشکل ہو، یعنی اس پر کوئی تعمیر وغیرہ کر لی گئی ہو، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو ایسی صورت میں چونکہ اب وہ بچہ بالغ ہو چکا ہے، اس لیے اس کے حصہ کی خریدوفروخت کا معاملہ فریقین باہمی رضامندی  سے کوئی بھی قیمت طے کر کے دوبارہ نئے سرے سے کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 107) دار الفكر-بيروت:
(حال وقوعه انعقد موقوفا) وما لا مجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا. بيانه: صبي باع مثلا ثم بلغ قبل إجازة وليه فأجازه بنفسه جاز؛ لأن له وليا يجيزه حالة العقد، بخلاف ما لو طلق مثلا ثم بلغ فأجازه بنفسه لم يجز؛ لأنه وقت العقد لا مجيز له فيبطل ما لم يقل أوقعته فيصح إنشاء لا إجازة كما بسطه العماد۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6/ 711) دار الفكر-بيروت:
قلت: وهذا لو البائع وصيا لا من قبل أم أو أخ فإنهما لا يملكان بيع العقار مطلقا ولا شراء غير طعام وكسوة، ولو البائع أبا فإن محمودا عند الناس أو مستور الحال يجوز ابن كمال(ولا يتجر) الوصي (في ماله) أي اليتيم (لنفسه) فإن فعل تصدق بالربح (وجاز) لو اتجر من مال اليتيم (لليتيم) وتمامه في الدرر.
قال ابن عابدین: (قوله لا من قبل أم أو أخ) أي أو نحوهما من الأقارب غير الأب والجد والقاضي، ويأتي آخر الباب تمام الكلام في ذلك (قوله مطلقا) أي ولو في هذه المستثنيات، وإذا احتاج الحال إلى بيعه يرفع الأمر إلى القاضي ۔
                                                                                                                                 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 714) دار الفكر-بيروت:
(ووصي أبي الطفل أحق بماله من جدهوإن لم يكن وصيه        فالجد) كما تقرر في الحجر في المنية ليس للجد بيع العقار والعروض لقضاء الدين وتنفيذ الوصايا بخلاف الوصي فإن له ذلك انتهى، والله أعلم.
قال ابن عابدین: (قوله ووصي أبي الطفل أحق إلخ) الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه، ولو أوصى إلى رجل والأولاد صغار وكبار فمات بعضهم وترك ابنا صغيرا فوصي الجد وصي لهم يصح بيعه عليه كما صح على أبيه في غير العقار فليحفظ. وأما وصي الأخ والأم والعم وسائر ذوي الأرحام ففي شرح الإسبيجابي أن لهم بيع تركة الميت لدينه أو وصيته إن لم يكن أحد ممن تقدم لا بيع عقار الصغار إذ ليس لهم إلا حفظ المال ولا الشراء للتجارة ولا التصرف فيما يملكه الصغير، من جهة موصيهم مطلقا لأنهم بالنظر إليه أجانب، نعم لهم شراء ما لا بد منه من الطعام والكسوة وبيع منقول ورثة اليتيم من جهة الموصي لكونه من الحفظ لأن حفظ الثمن أيسر من حفظ العين اهـ
المبسوط للسرخسي (20/ 180) دار المعرفة – بيروت:
فإن كانت الورثة صغارا وكبارا وصالح الوصي الكبار من دعواهم ودعوى الصغار على دراهم وقبضها الكبار وأنفقوا على الصغار حصتهم من ذلك فإن ذلك لا يجري على الصغار؛ لأنه لا ولاية للكبار على الصغار وللصغار أن يرجعوا بحصتهم على الوصي إذا أدركوا ويرجع الوصي على الكبار بحصة الصغار مما أخذوا؛ لأنهم يزعمون أنهم أخذوا المال عوضا عن الكل وقد استحق الصغار نصيبهم على الوصي فكان لهم أن يرجعوا بحصة ذلك من المأخوذ من الكبار۔
                                                                                                                                                                                                                                    درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 189) دار الجيل:                                                      
’’الشريك إذا باع نصفاً معيناً من الدار المشتركة على وجه الشيوع بينه وبين شريكه الآخر فالبيع لايجوز، فلو باع الشريك غرفةً معينةً من الدار المشتركة بينه وبين آخر إلى أجنبي فالبيع غير صحيح في حصة البائع ولا في حصة شريكه؛ لأن الغرفة التي بيعت ليست للبائع فقط بل للشريك الآخر شركة في كل جزء منها كما للأول. (بزازية) والظاهر أن البيع في أحد النصفين جائز، وفي الآخر موقوف على إجازة الشريك. (الشارح)‘‘ درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 177) دار إحياء الكتب العربية:
(وبيع الغاصب) فإنه موقوف على إجازة المالك إن أقر به الغاصب ثم البيع، وإن جحد وللمغصوب منه بينة فكذلك، وإن لم تكن ولم يسلمه حتى هلك ينتقض البيع (وحكمه) أي حكم البيع الموقوف (أنه إنما يقبل الإجازة إذا كان البائع والمشتري والمبيع قائما) المراد بكون المبيع قائما أن لا يكون متغيرا بحيث يعد شيئا آخر فإنه لو باع ثوب غيره بغير أمره فصبغه المشتري فأجاز رب الثوب البيع جاز ولو قطعه وخاطه ثم أجاز البيع لا يجوز لأنه صار شيئا آخر۔       
البناية شرح الهداية (8/ 318) دار الكتب العلمية،  بيروت:
 (والموقوف لا يفيد الملك) ش: أي الموقوف نفوذه على إجازة مالك ظاهر الملك وهو المغصوب منه، ألا ترى أن بيع الفضولي لا يفيد الملك للمشتري في الحال بالإجماع ولا ملك للمشتري من الغاصب في الحال.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

14/ربيع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب