021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اکراہ غیر ملجی کی صورت میں تحریری طلاق کا حکم
74680طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری بیوی کے بھائیوں نے ایک طلاق نامہ لکھا ، جس میں یہ الفاظ لکھے گئے تھے کہ "تم کو طلا ق دیتا ہوں ،آ ج کے بعد میرا تم سے کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا ،تو میرے  نفس پر حرام ہوچکی ہے، جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرلیوے مجھ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لہٰذا روبرو گواہان بمطابق ہوش وحواس خمسہ و اثبات عقل "پھر مجھ سے یعنی شوہر سے ایک دفعہ پڑھوایا گیا اور  اس طلاق نامے پر مجھ سے دستخط  کروائے گئے، حالانکہ ہم دونوں میاں بیوی اس طلاق نامے پر راضی نہیں تھے۔اب مجھ سے یہ طلاق نامہ پڑھوانے کے بعد  اور اس پر دستخط کروانے کے بعد میرے لیے اس لڑکی سے دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش ہے؟ جبکہ ہم دونوں میاں بیوی دوبارہ شادی کرنے پر راضی بھی ہیں ۔آپ مجھے شریعت کی روشنی میں بتائیں۔

تنقیح:لڑکی والوں نے کوئی قتل وغیرہ کی دھمکی نہیں دی ، بلکہ صرف تھوڑا سا دباؤ ڈالا ہے۔اسی طرح کنایہ کے الفاظ بولتے ہوئے شوہر کی کوئی نیت نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں  دو طلاق بائن واقع ہوئی ہیں ، البتہ دوبارہ نکاح کی گنجائش موجود ہے جس کی صورت یہ ہے کہ شوہرگواہوں کی موجودگی میں نئے مہرکے ساتھ دوبارہ نکاح کرے ،نیز یاد رہے کہ دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف ایک طلاق کاحق حاصل ہوگا۔

حوالہ جات
(الفتاوی الھندیۃ) (35/5)
(وأما) (أنواعه) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد".
(الدر المختار) (3/ 246(
كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة".
     وَالطَّلَاقُ الْبَائِنُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ تَقَعُ طَلْقَةٌ أُخْرَى، وَلَايَلْحَقُ الْبَائِنُ الْبَائِنَ". ( ١ / ٣٧٧)

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۹/ربیع الثانی ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب