021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد اور بیٹے نے مل کر پلاٹ خریدا پھر بیٹے نے مکان تعمیر کروایا،والد کے انتقال کے بعدوراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟
74679میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

گذارش عرض ہے کہ ایک مکان ہے جو ماں کے نام ہے جبکہ ماں اور باپ دونوں کا انتقال ہوچکا ہے،ان کے دو بیٹے  اور چار بیٹیاں ہیں، مکان کے لیے پلاٹ کی خریداری میں کچھ پیسہ باپ کا اور زیادہ پیسا بڑے  بیٹے کا لگا تھا  جبکہ مکان کی تعمیر بھی بڑے بیٹے نے اپنی رقم سے کروائی تھی،اب بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے جن کے سوگواران میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں ہیں، جبکہ مکان اب تک ماں کے نام ہی ہے۔ برائے مہربانی شرعی نقطۂ نظرسے رہنمائی فرمائیں کہ مکان کی وراثت میں کن ورثاء کا حصہ ہے اور ان کی شرعی تقسیم کس طرح ہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مکان کسی کے نام پر کروانے سے اس کی ملکیت میں شمار نہیں ہوتا بلکہ باقاعدہ شرعی قبضہ کروانا ضروری ہوتا ہے ، یعنی   مکمل مالکانہ تصرفات کے حق کے ساتھ قبضہ کروانا ضروری ہے۔صورت مسؤلہ میں اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ گھر کس حیثیت سے سائل کی والدہ کے نام کروایا گیا تھا؟لہٰذا اگر کوئی حیثیت طے نہیں تھی توصرف والدہ کے نام کروانے سے یہ مکان  والدہ کی ملکیت میں شمار نہیں ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ  مکان  کی خریداری میں بڑے بیٹے نے جو پیسہ لگایا تھا اس کی بھی حیثیت سوال میں مذکور نہیں ہے،البتہ سائل نے یہ وضاحت بذریعہ ٹیلیفون کی ہے کہ جس وقت بڑے بیٹے نے والد کے ساتھ مل کر یہ مکان خریدا تھا اس وقت اس خریداری میں جو رقم بڑے بیٹے نے دی تھی اس کی کوئی حیثیت طے نہیں تھی اور  بیٹا  والد کے ساتھ کاروبار میں معاون وغیرہ بھی نہیں تھا بلکہ دونوں کے ذریعہ آمدن الگ الگ تھے، اسی طرح تعمیر کے وقت بھی کوئی حیثیت طے نہیں کی تھی۔

سائل کی طرف سے درج بالا وضاحت   کے  نتیجے میں مذکورہ سوال کا حکم یہ ہے کہ  ابتدائی طور پر  پلاٹ کی خریداری میں  کل قیمت میں سے جتنی رقم بیٹے نے ادا کی تھی وہ قرض شمار ہوگی، اسی طرح مکان کی تعمیر میں جو رقم بیٹے نے خرچ کی ہے وہ بھی قرض شمار ہوگی، لہٰذا مکان سے حاصل ہونے والی رقم میں سے پہلے بڑے بیٹے کے قرض کی رقم نکالی جائے گی اور بقیہ میراث درج ذیل طریقے سے ورثاء کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

قرض کی رقم نکالنے کے بعد بقایا میراث والد کے ورثاءکے درمیان  درج ذیل طریقے سے تقسیم ہوگی۔

۱۔ دونوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو والد کی وراثت میں سے ۲۵ فیصد  ملے گا۔

۲۔ چاروں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو12.5 یعنی ساڑھے بارہ فیصد ملے گا۔

بڑے بیٹے کے حصے کی تعیین کے بعد یعنی وہ حصہ جو والد کی وراثت میں سے بڑے بیٹے کو ملے گا اور مزید وہ رقم جو بطور قرض کی واپسی کے اس کے حصے میں آئے گی، اس مکمل حصے کی تقسیم بڑے بیٹے کے ورثاء میں درج ذیل طریقے سے کی جائے گی۔

۱۔ بیوہ کو12.5 یعنی ساڑھے بارہ فیصد ملے گا۔

۲۔پانچ بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو 17.5 یعنی ساڑھے سترہ فیصد ملے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)
 لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 801)
[فصل في المناسخة]
 هي مفاعلة من النسخ بمعنى النقل والتحويل والمراد بها هنا أن ينتقل نصيب بعض الورثة بموته قبل القسمة إلى من يرث منه.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 233)
(وللزوجة نصفه) أي للزوجة نصف ما للزوج فيكون لها الربع، ومع الولد أو ولد الابن وإن سفل الثمن لقوله تعالى {ولهن الربع مما تركتم إن لم يكن لكم ولد فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم} [النساء: 12]
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 234)
 ( وعصبها الابن، وله مثلا حظها) معناه إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين لقوله تعالى {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} [النساء: 11] فصار للبنات ثلاثة أحوال النصف للواحدة والثلثان للاثنتين فصاعدا، والتعصيب عند الاختلاط بالذكور.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۹/ربیع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب