021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجازت کے بغیر کسی کا بارگین (شو روم)فروخت کرنے کاحکم
72203خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

میں  بیوہ سید علی یہ بیان دیتی ہوں کہ میرا شوہر ایک خود مختار آدمی تھے اور اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ تمام قسم کی شراکت داری ختم کر دی تھی (کاروبار،جائیداد اور ہر قسم کا لین دین )وغیر ہ وغیر ہ۔

میرے شوہر  سید علی (مرحوم) کا ایک عدد بارگین جو پیراڈائیز بارگین نوشہر ہ کینٹ میں موجود تھا  اور  اس بارگین میں تین (3) پارٹنر  تھے:۱۔سید علی (میراشوہر )،۲۔تسلیم،۳۔حبیب الرحمن عرف طوریٰ خان ۔

میرا شوہر سید علی 1990؁ میں وفات پاگیا تھا ۔میرے شوہر  کے بعد میرا دیو ر جس کا نا م میر علی ہے،اس نے ہمارے بارگین کی ذمہ داری سنبھال لی،اور1991؁میں ایک پارٹنر ’’جس کا نا م تسلیم تھا ‘‘نے اپنا حصہ ہم پر بیچ دیا ۔پھر اس میں ہمارے دو (2)حصے ہوگئے، اور ایک حصہ حبیب الرحمن عرف طوری خان کا رہ گیا ۔اسکے بعد 2002؁تک ہمارا بارگین میرا دیور میرعلی چلاتا رہا ۔کچھ نہ کچھ وہ ہم کو بغیر حساب کے دیتا رہا ، کبھی /-2000روپے اورکبھی /-3000روپے،اور کبھی كچھ  بھی  نہيں  دیتا تھا،کیونکہ میں ایک بیوہ عورت تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں کچھ بھی نہیں بول سکتی تھی ۔اسکے بعد2002؁میں میرعلی  یعنی میرے دیور نے ہماری بارگین ہم سےپوچھے بغیر اور ہماری مرضی کے بغیر بیچ دی اور ہم سے پوچھا بھی نہیں۔ہم نے اس کو بارگین بیچنے کی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ہی کوئی مختار نامہ دیا تھا اور نہ ہی اسٹامپ پیپر دیا تھا۔

میرے دیور نے اس وقت بارگین بیچنےکی قیمت جو وصول کی وہ /-1450000(چودہ لاکھ پچاس ہزار)پاکستانی روپے تھے ۔اس میں ہمارا حصہ /-966000(نو لاکھ چھیاسٹھ)ہزار روپے پاکستانی بنتے ہیں،ہمیں اس نے  صرف /-

285000(دو لاکھ پچاسی ہزار) روپے دیے،اور باقی ساری رقم ابھی تک اس کے پاس ہے۔اس وقت 2002 ؁سے لیکر2021؁ تک یہ رقم اس کے پاس ہے ،وہ ابھی تک ان پیسوں سے  کاروبار کرتا رہا ہے ،اور ابھی اس وقت وہ ان پیسوں کی وجہ سے کروڑوں کا مالک ہے۔

زمینیں بھی لے لی ہیں،پلاٹ بھی لے رکھے ہیں،بنگلے بھی خریدلیے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم کچے گھر میں رہ  رہے ہیں ،اس وقت سے لےکر ابھی تک میں نے اپنے گھر میں چھوٹا سا روزگار شروع کیا ہے جس پر ہمار اگزارا ہوتا ہے،اور ابھی تک میرے بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں .اب میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور  ہم اپنا حق  میرعلی سے مانگ رہے ہیں,میرا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں جو اب  جوان ہوگئے ہیں ,وه اپنا حق اپنےچچا میرعلی سے مانگ رہے ہیں۔

نوٹ: اس سارے معاملے کومدنظر رکھتے ہوئے اس پر فتویٰ جاری فرمائیں،تاکہ ہم اس کی روشنی میں آپس میں کوئی فیصلہ کریں۔     

                                            

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص کسی اور کی مملوکہ چیز اس کی اجازت کے بغیر  بیچتا ہے تو شریعت کی رو سے یہ معاملہ اصل مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے ،اگر وہ اجازت دے گا تو معاملہ نافذومعتبر بن جائے گاورنہ باطل وکالعدم ہو گا۔

لہذاسوال میں مذکورہ  صورت اگر حقیقت کے مطابق ہے تو یہ  معاملہ آپ کی اجازت پر موقوف ہے الا یہ کہ آپ نے ان کوقولاً یعنی منہ سے بول کر ،یا فعلاً یعنی ان سے پیسوں  کا مطالبہ کرلیا ہو ،اجازت دی ہو تو یہ معاملہ نافذ ہوگا،ورنہ یہ آپ کی ملکیت ہےاورمیرعلی پر لازم ہےکہ  خریدار کو اس کے پیسے واپس کریں،اور آپ کو آپ کی بارگین ۔

لیکن یہاں چونکہ آپ نے اپنے حصے کےپیسوں کو قبول کیا ہے، اس لیے یہ معاملہ نافذ ومعتبر بن چکا ہےیعنی بارگین  پر خریدار کی ملکیت  ثابت ہو چکی ہے ،اور اسکے عوض  اس نے جو قیمت ادا کی ہے وہ آپ اور آپ کے دوسرے پارٹنر کی ملکیت ہے ۔

لہذا میر علی پر لازم ہے کہ وہ آپ کو آپ کے حصے کی رقم سپر د کرے،الا یہ کہ اس نے اس پر کوئی معقول خرچہ کیا ہو، مثلاً بجلی کا بل اور ملازم وغیر ہ کی تنخواہ ،یا اپنا حصہ اگر وہ شراکت دار ہے،تو اس کو اس رقم سے منفی کر سکتا ہے ۔

اسی طرح شرعاً کسی کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے کا مال اسکی اجازت کے بغیر کاروبار میں لگا کر استعمال کرے اور اس سے نفع کمائے،لہذا  اگر میرعلی نے بقول آپ کے  تمہارے ہی پیسوں سے نفع کما کر  اتنی پراپر ٹی اور جائیدادیں  بنائی ہے،تو یہ سارا نفع اس کے لیے حلال نہیں ہے، بلکہ اس کا یہ عمل غصب او رناجائز ہے جسکی وجہ سے وہ گناہ گار ہے ،اور اس پر لازم ہے کہ آپ کے سرمایہ سے اس  نے جتنی کمائی کی ہے، وہ   آپ کو واپس کرے،لیکن یہ حکم دیانت وایمانداری کاہے،یعنی اگر وہ ایسا نہیں کرے گاتووہ گناہ گار ہوگا۔ آپ کو قضاءً وقانوناً اس سےاپنا سرمایہ واپس لینے کا  حق توہے لیکن اس سے زائد نفع اوردیگر  جائیداد میں حصےّ کا آپ کو  حق نہیں ہے،البتہ دیانتہً اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کو وہ زائد نفع میں سے بھی حصہ دے دیں ورنہ وہ گناہ گار ہوگا۔ 

حوالہ جات
الاختيار لتعليل المختار (2/ 17)
ومن باع ملك غيره فالمالك إن شاء رده وإن شاء أجاز إذا كان المبيع والمتبايعان بحالهم.
أن تصرفات الفضولي منعقدة موقوفة على إجازة المالك لصدورها من الأهل۔۔ لأن الكلام فيه، ولا ضرر فيه على المالك لأنه غير ملزم له،ولما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - دفع دينارا إلى حكيم بن حزام ليشتري به أضحية، فاشترى شاة ثم باعها بدينارين، واشترى بأحد الدينارين شاة، وجاء إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - بالشاة والدينار، فأجاز صنيعه ولم ينكر عليه ودعا له بالبركة» ، وكان فضوليا لأنه باع الشاة واشترى الأخرى بغير أمره۔۔۔ لأن عند الإجازة يصير الفضولي كالوكيل حتى ترجع الحقوق إليه، فإن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 147)
والفضولي جمع فضل غلب في الاشتغال بما لا يعنيه وما لا ولاية له فيه فقول بعض الجهلة لمن يأمر بالمعروف أنت فضولي يخشى عليه الكفر وصفته أنه عقد صحيح غير نافذ والأصل أن كل عقد صدر من الفضولي وله مجيز انعقد موقوفا على الإجازة۔
فقہ البیوع(۱۰۰۵،۶،۷ )
القسم الأوّل ماكان محرّماً على المرأ لكونه ملكاً للغيروهو مثلُ المال المغصوب الّذى هو مقبوضٌ بيد الغاصب متميّزٌ عن أملاكه الأخرى. وفى حُكمِه ما قبضه بأيّ نوعٍ من البيوع الباطلة، ويشمل هذا التّعبير كلَّ مالٍ حرامٍ لايملكه المرأ فى الشّرع، سواءٌ كان غصباً أو سرقةً أو رشوةً أو رباً فى القرض، أو مأخوذاً ببيعٍ باطل.
وإنّه حرامٌ للغاصب الانتفاعُ به أو التّصرّفُ فيه، فيجبُ عليه أن يرُدّه إلى مالكه، أوإلى وارثه بعد وفاتِه، وإن لم يُمكن ذلك لعدم معرفةِ المالك أو وارثه، أولتعذّر الرّدّ عليه لسببٍ من الأسباب، وجب عليه التّخلّصُ منه بتصدّقه عنه من غير نيّةِ ثوابِ الصّدقةِ لنفسه. وهذاالحكمُ عامٌّ سواءٌ كان المغصوبُ عرْضاً أو نقداً، لأنّ النّقودَ تتعيّنُ فى الغُصوب حتّى عند الحنفيّة الّذين يقولون بعدم تعيّن النّقود، كما مرّ تحقيقُه. ثمّ إن كان المغصوبُ قائماً عند الغاصب بعينه، تتعدّى حُرمتُه إلى مَن يأخذُه من الغاصب شراءً أوهبةً أو إرثاً، وهو يعلمُ أنّه مغصوب.
فقہ البیوع( ۱۰۱۱)
الشّراء بالنّقود المغصوبة: أمّا إذا كان المغصوبُ نقداً، وأراد الغاصبُ أن يشترىَ به شيئاً۔۔۔أنّه لايحلّ له الانتفاعُ بما اشتراه قبل أداء الضّمان، ولوباعه وربِح فيه قبل أداء الضّمان (بأن باعه بأكثرممّا اشترى به) لايطيبُ له الرّبحُ،حتّى بعد أداء الضّمان. (أمّا إذا أدّى الضّمان إلى المغصوب منه، ثمّ باع ما اشتراه، فهذا الرّبح طيّبٌ عند الجميع). وهو مقتضى ظاهر الرّواية، وهو الّذى اختاره أبوبكر الإسكاف، ورجّحه فى الهداية وبدائع الصّنائع، وفى الفتاوى الهنديّة نقلاً عن التّبيين.                 

 وقاراحمد بن اجبرخان

دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

۱۸رجب  ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب