021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام مسجد اور کمیٹی کے درمیان اختلاف سے متعلق سوالات(مسجد کے حدود میں نئی تعمیرات پرامام مسجد اور کمیٹی کے درمیان اختلاف سے متعلق سوالات)
74559وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

سلام آباد کے سیکٹرF812میں جامع مسجد مدنی واقع ہے، جس کی منظوری حکومتِ پاکستان کے ادارہ سی ڈی اے(CDA) سے اس طرح لی گئی تھی کہ مسجد کے بیسمنٹ میں باقاعدہ مدرسہ  بنے گا، جو سی ڈےاے(CDA) کے نقشہ میں موجود ہے، کمیٹی نے بھی اتفاقِ رائے سے بیسمٹ میں مدرسہ تعمیر کیا تھا، جس میں کافی عرصہ تک حفظ القران کی تعلیم بھی جاری رہی ہے، اب کچھ عرصہ سے خطیب صاحب اور مدرسہ والوں کے درمیان اختلاف ہوا اور یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا، جس کی وجہ سے کمیٹی والوں نے مدرسہ ختم کرکے مدرسہ کا کمرہ دفتر کے لیے اور ایک بڑاھال بنا دیا جو نمازِ جمعہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس پس منظر کے تحت درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔   

1.    کیا اہلِ کمیٹی حضرات کو شرعاً یہ اختیار حاصل ہے کہ خطیب سے اختلاف کی بنیاد پر مدرسہ کو ختم کر دیں۔

2.    اہلِ کمیٹی حضرات نے مذکورہ مسجد کےبیسمنٹ میں ایک ہال کو چھوڑ دیا تھا جس کو اب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایک حصہ میں مسجد کے مؤذن کے لیے گھر بنایا ہے اور ساتھ ایک کمرے کو کرایہ پر دیا گیا ہے، مدرسہ کے ہال کو مؤذن کے گھر میں تبدیل کرنا اور کرایہ پر دینا کیسا ہے؟

3.    مسجد کے نچلے حصے میں ایک طرف خطیب مسجد کا گھر ہے اور اس گھر کے ساتھ ایک ہال بھی ہے، جس میں خطیب نے اپنی ضرورت کے پیشِ نظر تین کمرے تعمیر کیے تھے، جس کو اہلِ کمیٹی حضرات نے اپنے قبضہ میں لے کر وہ گھر ایسے شخص کو کرایہ پر دیا ہے کہ جس کی اہلیہ پردہ کا اہتمام نہیں کرتی۔ شریعت کی روسے ان کمروں کوایسےشخص کو کرایہ پر دینے کا کیا حکم ہے؟

4.    خطیب صاحب اور اہلِ کمیٹی کے درمیان اختلاف کی بنیاد ایک قاری صاحب نے ڈالی تھی، اہلِ کمیٹی حضرات نے مدرسہ ختم کر کے خطیب صاحب کو مصلی سے پیچھے کرکے ایک قاری صاحب کو امام مسجد بنایا، جوباقاعدہ عالمِ دین نہیں ہے اور نمازِ جمعہ پڑھانے پر قدرت نہیں رکھتا، نمازِ جمعہ کے لیے دوسرا خطیب آتا ہے جو جمعہ پڑھا کر چلا جاتا ہے،  ابھی تک امامت کے عہدے پر فائز ہے، نیز اس قاری صاحب نے کمیٹی کےحق میں عدالت میں گواہی بھی دی تھی کہ اس مسجد میں مدرسہ نہیں تھا، صرف مسجد ہے اور اس کا امام میں ہوں، اس کے علاوہ بھی وہ قاری صاحب  نازیبا حرکتوں میں مبتلا ہے، جس کا اہلِ کمیٹی کو علم ہے، لیکن پھر بھی امامت کے عہدے پر برقرار رکھا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ایسے شخص کو مستقل امام بنانا درست ہے؟

5.    مذکورہ بالا امور کی روشنی میں کیا ایسی کمیٹی مسجد کے امور سنبھالنے کی اہل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید دو باتیں جاننا چاہیے:

1)   مسجد اور مدرسہ شرعاً مستقل وقف کی حیثیت رکھتے ہیں، دونوں کے مقاصد بھی مختلف ہیں، اسی لیے ان میں سے کسی ایک کے لیے زمین وقف ہو جانے کے بعد اس کو دوسرے وقف میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، یعنی مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو مدرسہ کے لیے اور مدرسہ کے لیے وقف شدہ زمین کو مسجد کے لیے وقف نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر مسجد کے لیے زمین وقف ہوتو مصالحِ مسجد کے پیشِ نظر صرف استعمال کی حد تک مدرسہ کے مقاصد یعنی تعلیم کے لیے مسجد کی زمین اور عمارت وغیرہ استعمال ہو سکتی ہے، لیکن اس کی حیثیت مستقل وقف کی نہیں ہو گی، بلکہ ایک درسگاہ کی حیثیت ہو گی اور مسجد کی انتظامیہ کے لیے کسی معتبر عذر کی بناء پر اس درسگاہ کو ختم کرنے کی گنجائش ہو گی۔

2)   شرعی مسجد تحت الثری سے لے کر آسمان تک مسجد ہی شمار ہوتی ہے، البتہ اگر مسجد تعمیر کرنے سے پہلے اس کے نیچے اور اوپر مصالحِ مسجدیا منفعت عامہ (جس ميں بچوں كی تعليم كے ليے درسگاہ بنانا بھی داخل ہے) سے متعلق کوئی چیز بنانے کا ارادہ ہو تو یہ جائز ہے، لیکن مصالحِ مسجدیامنفعتِ عامہ کے علاوہ مسجد کے اوپر یا نیچے کوئی چیز بنانا جائز نہیں۔

اس تمہید کے بعد بالترتیب ہر سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں:

1.    اگر مذکورہ مدنی مسجد کی جگہ مسجد کے لیے باقاعدہ وقف کی گئی تھی تو اس صورت میں مسجد کے تہہ خانہ (بیسمنٹ) کو مدرسہ کے لیے وقف نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ایسی صورت میں مدرسہ کی حیثیت صرف ایک عارضی درسگاہ کی تھی، جس کو اگرچہ اصولی طور پر کسی معتبر عذر کی بنیاد پرختم کرنا یا کسی دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے، لیکن بغیر کسی عذرِ شرعی کے قرآن کریم کی درسگاہ کو مستقل طور پر ختم کر دینا درست نہیں، خصوصاً جبکہ حکومت سے مسجد کے نیچے مدرسہ بنانے کی تصریح کے ساتھ منظوری لی گئی تھی، لہذا حکومت کے اس معاہدے کی پاسداری کرنا ضروری تھا، نیز مسجد معاشرے کی دینی رہنمائی کے سلسلے میں ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور دینی رہنمائی میں بچوں کو کم از کم ناظرہ قرآن اورنمازکی تعلیم دینا بھی شامل ہے، اس لیے کمیٹی والوں کو چاہیے کہ مسجد کے ساتھ قرآن کی تعلیم کا سلسلہ ضرور شروع کریں، اگر کوئی مستقل جگہ نہ ہو تو قرآن کی تعلیم کے لیے مسجد کا حال بھی استعمال ہو سکتا ہے، جس میں بچے صبح وشام آ کر تعلیم حاصل کرکے چلے جایا کریں۔

2.    1)   اگر یہ جگہ مسجد کے لیے وقف تھی، جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے تو اس صورت میں تمہید نمبر۲ میں ذکر کیے گئے اصول کے مطابق مصالحِ مسجد سے متعلقہ امور کے لیے مسجد کے نیچے اور اوپر عمارت تعمیر کرنا جائز ہے اور امام مسجد کی رہائش گاہ بھی مصالحِ مسجد میں سے ہے، اس لیے اگر امام اصاحب کی رہائش کے لیے مسجد کے پاس کوئی اور جگہ موجود نہ ہو تو مسجد کے بیسمنٹ میں امام مسجد کی رہائش گاہ بنانا جائز ہے، اسی طرح مسجد کے اخراجات کے لیے پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لہذا مسجد کے کمرہ کو کرایہ پر دینا بھی  جائز ہے، تاکہ مسجد کے اخراجات بآسانی پورے کیے جا سکیں۔

3.    اگرخطیب صاحب کے پاس چھوٹا گھر تھا اور وہ واقعتاً ان تین کمروں کے محتاج تھے تو کمیٹی والوں کا امام صاحب سے وہ تینوں کمرے واپس لے کر کرایہ پر دینا مناسب نہیں تھا، کیونکہ مسجد کے خطیب اور امام کو ان کی ضرورت کے مطابق رہائش فراہم کرنا مسجد والوں کی ذمہ داری ہے، البتہ اگر یہ تین کمرے خطیب صاحب کی ضرورت سے زائد تھے تو اس صورت میں کمیٹی والوں کا یہ تین کمرے کرایہ پر دینا جائز ہے، جہاں تک کرایہ دار کی اہلیہ کے پردہ نہ کرنے کا تعلق ہے تو اصولی طور پر کرایہ دار کو سمجھانا چاہیے اور پردہ سے متعلق عظیم شرعی حکم کی اہمیت اس کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے، تاکہ وہ اپنی اہلیہ کو پردے کا پابند بنائے، لیکن اگر بالفرض اس کی اہلیہ اپنے اس رویہ سے باز نہیں آتی تو اس کا کرایہ داری کے معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑ ے گا، البتہ اگر اس کے پردہ کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو مسجد کا مکان اس سے واپس لے کر کسی اور کو کرایہ پر دیا جا سکتا ہے۔

4.    امامت بہت اعلیٰ منصب ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم خود امامت کرواتے تھے، اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ متقی ،پرہیزگار اورعالم شخص کو امام بنانا چاہیے اور اگر ایسا مشکل ہو تو کسی بھی شخص کو مستقل امام بنانے کے لیےکم از کم درج ذیل شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

5.    امام فسق یعنی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب  نہ کرتا ہو۔

6.    قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھتا ہو۔

7.    نماز سے متعلق بنیادی اور ضروری مسائل سے آگاہ ہو۔    امامت کے فرائض میں کوتاہی اور سستی سے کام  نہ لیتا ہو۔

8.    لہذااگرمذکورہ شخص ميں ظاہری اعتبار سے مذکورہ بالا شرائط پائی جا رہی ہیں تو اس کو امام بنانا جائز ہے، لیکن اگر ان میں سے کسی ایک شرط میں بھی کوتاہی پائی جائے تو ایسے شخص کو امام نہیں بنانا چاہیے، بلکہ کسی صالح اور دیندار شخص کو امام بنانا چاہیے۔

جہاں تک عالم ہونے کا تعلق ہے تو اگرچہ بہتر یہ ہے کہ امام حافظ اور عالم ہو، تاکہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں کم سے کم غلطی ہو اور اس کو بحسن وخوبی ادا کیا جا سکے، لیکن اگر وہ باقاعدہ عالم تو نہیں ہے، مگر اس کو نماز سے متعلق پیش آمدہ ضروری مسائل سے واقفیت حاصل ہے تو یہ بھی کافی ہے۔

9.    آج کل مساجد کی مروّجہ کمیٹیوں کی حیثیت متولیٴ مسجد کی ہے، متولیٴ مسجد کے بارے میں اصول یہ ہے کہ  وہ امانت داری کے ساتھ وقف کے امور کی نگہبانی کرنے والا ہو، اگر وہ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی اور غفلت کر رہا ہو تو اس کو تولیتِ وقف سے معزول کیا جا سکتا ہے، چنانچہ متولیٴ وقف کو معزول کرنے کے سلسلہ میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر متولیٴ مسجدمیں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو اس کمیٹی کو مسجد کا انتظام سنبھالنے کا اختیار حاصل ہے، ورنہ نہیں:

10.                        

1)   گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو۔

2)   امانت داری کے ساتھ وقف کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہو۔

3)   وقف کے مال میں خیانت اور دھوکہ دہی کا ارتکاب  نہ کرے۔

4)   کسی وجہ سے وقف کے انتظام وانصرام کی اہلیت مفقود نہ ہو۔

5)   وقف ميں لگائی گئی شرائط کی پاسداری کرتا ہو۔(ماخوذ از بتصرف اسلام كا نظامِ اوقاف:ص:548تا556)

لہذاگر یہ کمیٹی مذکورہ بالا شرائط کا اہتمام کر رہی ہے تو اس کا بطورِ تولیت مسجد کا انتظام وانصرام سنبھالناجائزہے، لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس کمیٹی کو معزول کرکے دوسری کمیٹی بنا دینی چاہیے اور کمیٹی میں کے ارکان میں ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جن میں مذکورہ بالا پانچ شرائط پائی جا رہی ہوں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 384) دار الفكر-بيروت:
مطلب في استبدال الوقف وشروطه (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال.
البحرالرائق: 5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت:
"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.
فإن قلت:لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت:قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى:إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق.
تقريرات الرافعي تحت الشامية: (ج:4ص: 80) دار الفكر-بيروت:
قال أورد الفقيه أبو الليث سؤالا وجوابا فقال: أليس مسجد بيت القدس تحته مجتمع الماء والناس ينتفعون به قيل: إذا كان تحته شيئ ينتفع به عامة المسلمينيجوز؛ لأنه إذا ينتفع به عامتهم صار ذلك لله تعالى أيضا۔ومنه  يعلم حكم كثير من مساجد مصر التي تحتها صهاريج ونحوها۔
الفتاوى الهندية (2/ 362) دار الفكر، بيروت:                                                                                                                                                           البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 656) دار الفكر-بيروت:
(قوله إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتا للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحا، نعم سيأتي متنا في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سردابا بالمصالحة جاز تأمل۔
ملتقى الأبحر (ص: 593) دار الكتب العلمية – بيروت:
إذا بنى مسجدا لا يزول ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة فيه ويصلي فيه واحد وفي رواية شرط صلاة جماعة ولا يضر جعله تحته سردابا لمصالحه وإن جعله لغير مصالحه أو جعل فوقه بيتا وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن بالصلاة فيه لا يزول ملكه عنه وله بيعه فيورث۔
الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني (1/ 20) إدارة القرآن والعلوم الإسلامية – كراتشي:
قلت أرأيت القوم يؤمهم العبد أو الأعرابي أو الأعمى أو ولد الزنا قال صلاتهم تامة قلت ويؤمهم غير هؤلاء أحب قال نعم قلت أرأيت إن أمهم فاسق قال صلاتهم تامة قلت أي القوم أحب إليك أن يؤمهم قال أقرأهم لكتاب الله تعالى وأعلمهم بالسنة قلت فإن كان في القوم رجلان أو ثلاثة كذلك۔
تحفة الفقهاء (1/ 229) دار الكتب العلمية، بيروت:
ومنها بيان الأفضل فنقول إن الحر والتقي والبصير أفضل من العبد والفاجر والأعمى لأن إمامة هؤلاء سبب لتكثير الجماعة وإمامة أولئك سبب للتقليل فما هو سبب للتكثير أولى وأفضل ثم أفضل هؤلاء من كان أقرأهم لكتاب الله وأعلمهم بالسنة فإن كان منهم رجلان أو أكثر على هذا فأكبرهما سنا أولى وإن استويا في الكبر فأبينهما صلاحا أولى وإن استويا في ذلك قالوا أحسنهما خلقا أولى وإن استويا فأحسنهما وجها أولى لأن هذه الأوصاف سبب الرغبة إلى الجماعة ولو استويا في العلم
وأحدهما أقرأ أو استويا في القراءة وأحدهما أعلم فهو أولى فأما إذا كان أحدهما أقرأ والآخر أعلم فالأعلم أولى لأن حاجة الناس إلى علم الإمام أشد وعلى هذا قالوا العالم بالنسبة إذا كان ممن يجتنب الفواحش الظاهرة وغيره أورع منه لكن غير عالم بالسنة فتقديم العالم أولى۔
الفتاوى الهندية (2/ 408) دار الفكر،بیروت:
الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه۔
            فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 242) دار الفكر،بیروت:
وينعزل الناظر بالجنون المطبق إذا دام سنة نص عليه الخصاف لا إن دام أقل من ذلك. ولو عاد إليه عقله وبرأ من علته عاد إليه النظر. وللناظر أن يوكل من يقوم بما كان إليه من أمر الوقف، ويجعل له من جعله شيئا، وله أن يعزله ويستبدل به أو لا يستبدل، ولو جن انعزل وكيله ويرجع إلى القاضي في النصب.
المغني (6/ 40) لابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) مكتبة القاهرة:
 وإن ولاه الواقف وهو فاسق، أو ولاه وهو عدل وصار فاسقا، ضم إليه أمين ينحفظ به الوقف، ولم تزل يده؛ ولأنه أمكن الجمع بين الحقين. ويحتمل أن لا تصح توليته، وأنه ينعزل إذا فسق في أثناء ولايته؛ لأنها ولاية على حق غيره، فنافاها الفسق، كما لو ولاه الحاكم، وكما لو لم يمكن حفظ الوقف منه مع بقاء ولايته على حق غيره، فإنه متى لم يمكن حفظه منه أزيلت ولايته، فإن مراعاة حفظ الوقف أهم من إبقاء ولاية الفاسق عليه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 380) دار الفكر-بيروت:
القيم إذا لم يراع الوقف يعزله القاضي وفي خزانة المفتين إذا زرع القيم لنفسه يخرجه القاضي من يده۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 220) دار المعرفة بيروت:
يفسق هذا الناظر بتماديه على عدم العمارة وتقديمه الصرف عليها وتهاونه في استخلاص الريع وضياعه عند السكان وصرف ما وصل منه لنفسه دون مستحقي الوقف ويستحق بذلك العزل ومن اتصف بهذه الصفات المخالفة للشرع التي صار بها فاسقا لا يقبل قوله فيما صرفه إلا ببينة ويرجع عليه بما صرفه مخالفا لشرط الواقف والله أعلم اهـ.
حاشية الشلبي علي  شرح كنز الدقائق (3/ 330) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
أورد أبو الليث هنا سؤالا وجوابا فقال فإن قيل أليس مسجد بيت المقدس تحته مجتمع الماء والناس ينتفعون به قيل إذا كان تحته شيء ينتفع به عامة المسلمين يجوز لأنه إذا انتفع به عامة المسلمين صار ذلك لله تعالى أيضا.
وأما الذي اتخذ بيتا لنفسه لم يكن خالصا لله تعالى فإن قيل لو جعل تحته حانوتا وجعله وقفا على المسجد قيل لا يستحب ذلك ولكنه لو جعل في الابتداء هكذا صار مسجدا وما تحته صار وقفا عليه ويجوز المسجد والوقف الذي تحته ولو أنه بنى المسجد أولا ثم أراد أن يجعل تحته حانوتا للمسجد فهو مردود باطل .
لسان الحكام (ص: 294) البابي الحلبي– القاهرة:
وإذا كان اصل القرية وقفا على جهة قرية فبنى عليها رجل بناء ووقف بناءها على جهة قرية أخرى اختلفوا فيه فأما إذا وقف البناء على جهة القرية التي كانت البقعة وقفا عليها فيجوز بالإجماع ويصير وقفا تبعا للقرية هذا هو الذي استقر عليه فتاوى أئمة خوارزم۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

18/ربيع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب