021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں رب المال کا متعین نفع لینے کا حکم
72450مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

جناب مفتی صاحب! دراصل میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر کے پاس (70000)ہزار کی رقم ہے جو وہ کسی کاروباری بندےکو دے رہے ہیں,تاکہ انہیں نفع ملتارہے، وہ بندہ ہرماہ میرے شوہر کو پانچ ہزار روپے(5000) دے گا ،بندے کا کہنا ہے کہ آپ یا تو چھ ماہ بعدتیس ہزار(30000) منافع لے لو، اور یاہر مہینے میں پانچ ہزار کی(5000) رقم لے لو ،مگر چھ ماہ تک میرے شوہر اس بندے سے پیسے واپس کرنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے ۔

مجھے لگتا ہے ہر مہینے ایک جیسی رقم لینا سود میں آجائے گا،اس لیے میرے شوہر نے بندے سے بات کی، تو ان کا کہنا ہے کہ میں آپ کو رقم کسی مہینے پانچ ہزار (5000)،اور کسی مہینے ایک ہزار (1000)یعنی توڑ کر دے دوں گا،مگر تیس ہزار (30000)سے زیادہ نہیں دوں گا،میرے شوہر کا کہنا ہے کہ وہ بندہ ہمارے دیے ستر ہزار (70000)کی رقم سے پچیس ہزار اور کبھی تیس ہزار کمائے گا ہمیں تووہ بس پانچ ہزار (5000)دے  گا تویہ سود نہیں ہوگا؟

 

                                                                                                                                                                           

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

معاملہ کی مذکورہ صورت شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے،کیونکہ یہاں آپ کے لیے نفع کی فکس رقم مقرر کی گئی ہے،جو کہ شرعا جائز نہیں ہے ،کیونکہ اس سے نفع میں شرکت منقطع ہونے کا اندیشہ ہے،یعنی  ہو سکتاہے کہ جتنا  نفع آپ  کے لیے مقرر  کیا گیا ہے،سارا نفع اتنا ہی ہو اور دوسرے آدمی کو کچھ بھی نہ ملے۔

البتہ اگر آپ اُس کو یہ رقم یہ کہہ کر  دیں کہ آپ کو کاروبار میں جتنا نفع ہوگا اس کا حساب کرکے اسمیں سے اتنے فیصد (مثلاً ۱۰ فیصد )آپ مجھے دینگے ۔تو اس طرح یہ عقد شرعاً جائز ہوگا۔پھر اس طرح عقد کے بعد چاہے وہ ہر مہینہ حساب کرکےآپ کو طے شدہ تناسب (مثلاً دس فیصد )نفع دیدے ،یا آپ کو علی الحساب قرض کی بنیاد پر ہر ماہ پانچ ہزار  دیتا رہے اور چھ ماہ بعد نفع کا حساب کرکے کل دورانیہ کا نفع معلوم کرکے اس میں سے ادا شدہ نفع منھا کرلے اور اگر دس فیصد میں مزید کچھ نفع بچتا ہوتو بھی آپ کو دیدے ،اور اگر دس فیصد نفع آپ کے لئے ہوئے نفع سے کم بنتا ہو تو ایسے میں آپ نے جتنی زائد رقم لی ہووہ آپ کو واپس کرنی ہوگی ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/  648,647)
وشرطها(كون رأس المال من الأثمان) كما مر في الشركة وهو معلوم للعاقدين وكفت فيه
الإشارةوالقول في قدره وصفته للمضارب بيمينه، والبينة للمالك. (وكون رأس المال عينا لا دينا) كما بسطه في الدرر (وكونه مسلما إلى المضارب) ليمكنه التصرف(بخلاف الشركة) ؛
لأن العمل فيهما من الجانبين .(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/430,425)
المضاربة نوع شركة على أن يكون رأس المال من طرف والسعي والعمل من الطرف الآخر۔
المضاربة ثابتة باالسنۃ۔۔۔۔أن الرسول  صلى الله عليه وسلم حينما رأى الناس يباشرون هذه المعاملة
فأقرهم عليها إجماع الأمة: وقد عمل الصحابة الكرام هذه المعاملة أيضا، الاحتياج: أن بعض الناس مع كونهم أغنياء يعجزون عن التصرف في أموالهم وتنميتها، كما أن بعضهم مقتدر على التصرف في الأموال وفي أثمانها مع كونه محروما من المال فلذلك توجد ضرورة لهذا النوع من التصرف لتنظيم مصالح الغبي والذكي والفقير والغني۔
وشروط المضاربة ثمانية،أن يكون رأس المال من الأثمان,أي الدراهم والدنانير فلو من العروض فباعها فصارت نقودا انقلبت مضاربة، واستحق المشروط كما في الجواهر.أن يكون رأس المال معلوما عند العاقدين يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا كالنصف والثلث ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا " الربح مشترك بيننا " يصرف إلى المساواة) ۔أن يكون رأس المال عينا, فلو قال اعمل بالدين الذي في ذمتك مضاربة بالنصف لم يجز.تسليم رأس المال للمضارب؛ لأن العمل مطلوب من المضارب فإذا لم يسلم إليه رأس المال على وجه الكمال فلا يتمكن المضارب من العمل في رأس المال، فلذلك أنه إذا شرط عمل رب المال أثناء عقد المضاربة تفسد ۔أن يكون الربح شائعا,(3/ 436)إذا لم تعين حصة العاقدين جزءا شائعا بل قطعت وعينت على أن يعطي أحدهما كذا درهما من الربح تفسد المضاربة).أن تكون حصة المضارب وحصة رب المال من الربح معلومة عند العقد.

  وقاراحمد بن اجبرخان

 دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

25رجب1442                                                            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب