021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹی کا والد سے ان کا مکان اپنے نام کروانا
74620ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

 میری والدہ کے انتقال کے بعد میرے بہن بھائی تمام ترکہ پر قابض ہوکر بیٹھ گئے اور مجھے کچھ بھی نہ دیا،میں نے گھر کی بڑی ہونے کے ناطے کافی عرصہ پورا گھر چلایا اور اپنی شادی کے انتظامات بھی میں نے خود کئے،کسی بھائی اور بہن نے کوئی مدد نہیں کی،ابو کو بھی میرے خلاف بھڑکایا اور انہوں نے بھی اکثریت کے آگے ہتھیار ڈال دئیے،اب میرے ابو میرے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں،ان کی ملکیت میں ایک بہت پرانا مکان ہے،کیا میں وہ مکان صرف اپنے نام کرواسکتی ہوں؟ایسا کرنے کی وجہ سے میں گناہ گار تو نہیں ہوں گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی کے مرنے کے بعد اس کی ملک میں موجود تمام اشیاء یعنی سونا،چاندی،جائیداد،مال تجارت یا اس کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان جو اس کی ملک میں ہو سب اس کا ترکہ کہلاتا ہے جسے اس کی وفات کے وقت موجود ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے،لہذا آپ کی والدہ کی وفات کے بعد آپ کے بہن بھائیوں نے آپ کا جو حصہ لیا ہے وہ ان کے لیے ناجائز اور حرام ہے۔

صحیح بخاری میں موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ جس نے کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا قیامت کے دن اس کے بدلے اسے سات زمینوں کی تہہ تک دھنسایا جائے گا،جبکہ ایک دوسری روایت کا مفہوم ہے کہ جس نے بالش بھر کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا اس کے بدلے سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔

لہذاان سب کے ذمے لازم ہے کہ آپ کا حصہ آپ کو ادا کریں،ورنہ کل قیامت کے دن اس زیادتی کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہوگا۔

بقیہ آپ کے والد کا زندگی میں اپنا مکان آپ کے نام کرواکر آپ کو دینا ہبہ کے حکم میں ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ بغیر کسی معقول وجہ کے اولاد کو ہبہ کرنے میں کمی بیشی نہیں کرنی چاہیے،بلکہ سب کو چاہے لڑکا یا لڑکی برابر دینا چاہیے،لیکن اگر کوئی معقول وجہ ہو، جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر یہ مکان صرف آپ کے نام کروانے کی اگر کوئی معقول وجہ موجود ہو تو آپ اسے اپنے نام کرواسکتی ہیں،لیکن یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ صرف آپ کے نام کروانے سے وہ مکان آپ کی ملکیت میں نہیں آئے گا،جب تک وہ مکان باقاعدہ آپ کے قبضے میں نہ دیا جائے،کیونکہ والد کا مکان آپ کو دینا ہبہ ہے اور ہبہ کے مکمل ہونے کے قبضہ شرط ہے،اس کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔

اگر  والد نے مکان صرف  آپ کے نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تویہ ہبہ پورانہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد یہ مکان بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".
"البزازیہ علی ھامش الہندیۃ"(۶/237):
"الافضل فی ھبۃ الابن والبنت التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھوالمختار،ولووھب جمیع مالہ من ابنہ جاز ،وھو آثم ،نص علیہ محمد ،ولو خص بعض اولادہ لزیادۃ رشدہ لاباس بہ ،وان کانا سواءلایفعلہ".
"صحيح البخاري "(3/ 130):
" قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين».

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/ربیع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب