021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خریدوفروخت کی پندرہ شرائط
74626خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اسٹاک ایکسچینج میں  شیئرز کی خریدوفروخت جائز ہے یا ناجائز؟ نیز اس میں پیسے انویسٹ کرنے کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شیئرز درحقیقت کمپنی کے مخصوص مشاع حصے کی نمائندگی کرتے ہیں، جس پر حقیقی قبضہ ممکن نہیں ہوتا، اس لیے شیئرز کی خریدفروخت آن لائن اسکرین پر ہی کی جاتی ہے اور پھر اسٹاک ایکسچینج میں کی جانے والی خریدوفروخت كی بہت سی ایسی اقسام رائج ہیں جو شرعی نقطہٴ نظر سے جائز نہیں، الغرض اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں بہت سے مسائل شریعت سے متعلق ہیں، شیئرز کا کاروبارکرنے کے لیے جن کا جاننا بہت ضروری ہے، لہذا اسٹاک ایکسچینج میں خریدوفروخت کرنے اور پیسے انویسٹ کرنے کے لیے درج ذیل شرائط کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے:

1۔ جس کمپنی کے شئیرز خریدنا چاہتے ہیں اس کاکاروبار حلال ہو۔ اگر کمپنی کا کاروبار غیر شرعی  ہو، جیسےمروجہ غیر اسلامی  بینکوں اور انشورنس کمپنیوں  ،ا سی طرح  شراب بنانے والی اور بنیادی  طور پرسود ی کاروبارکرنے والی کمپنیوں کے شئیرز خریدناجائز نہیں ۔

2۔ اس کمپنی کا کاروبار واقعۃً  شروع ہوچکا ہو اور اس کمپنی کی املاک  مثلا ً عمارت اور مشینری  وغیرہ وجود میں آچکی  ہوں اور نقد اثاثے صرف پلاننگ  اور منصوبہ بندی  تک محدود نہ ہوں  ۔ اگر کمپنی صرف منصوبہ بندی  اور نقد اثاثوں  تک محدود ہو اور کاروبار شروع نہ ہوا ہو تو شئیرز کو صرف ان  کی اصل قیمت (Face Value)    پر خریدنایا بیچنا جائز  ہے  ا  س سے کم وبیش پر خریدنا  بیچنا جائز نہیں ۔

3۔ نفع ونقصان  دونوں میں شرکت ہو ،یعنی اگر کمپنی   کو نفع ہو تو  شئیرز کے خریدار  بھی نفع میں شریک ہوں گے اور اگر نقصان  ہوتو اپنے سرمائے  کے تناسب   سے نقصان  میں بھی شریک ہوں گے ۔

4۔ نفع فیصد  کے اعتبار سے  طے ہو یعنی   نفع کی ماہانہ یا سالانہ  کوئی خاص رقم یقینی  طور پر مقررنہ ہو ،بلکہ فیصد کے حساب سے  نفع مقرر کیاگیا ہوکہ جو نفع ملے گا اس میں سے اتنے فیصد کمپنی کا ہوگا اور اتنے فیصد شئیر ہولڈر میں تقسیم کیاجائے گا۔

5۔ شئیرز خریدنے  میں یہ بھی ضروری  ہے کہ کمپنی  کا اصل کاروبار  حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی  طور پر بھی  کسی ناجائزکاروبار  میں ملوث نہ ہو اوراگر ہو تو اس ضمنی  کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تناسب  اس کی مجموعی  آمدنی  میں معتد بہ مثلا ً  پانچ فیصد   نہ ہو ( جیسا کہ اس کی پابندی  آج کل کے اسلامی  مالیاتی اداروں  میں کروائی جارہی ہے )، نیزاس صورت میں بھی شئیرز خریدنے والا اس ارادے  سے خریدے  کہ وہ کمپنی کو ناجائز اور حرام معاملات  کرنے سے  ہر طرح  منع کرےگا  ، تحریری  طور پر بھی  اور خصوصاً کمپنی کےسالانہ اجلاس میں بھی یہ آواز اٹھائے گا  کہ کمپنی ناجائز اور حرام معاملہ  نہ کرے اور کم از کم  ہمارا سرمایہ   کسی حرام اور ناجائز کاروبار میں نہ لگائے۔

6۔شق نمبر5  کے پیش نظر  جب  کمپنی  سے سالانہ نفع وصول ہو تو شئیرز رکھنے والا  ا س کمپنی  کی بیلنس شیٹ  میں دیکھے  کہ کمپنی  نے کتنے فیصد  سرمایہ ناجائز  کاروبار میں لگاکر نفع حاصل کیاہے؟پھر اس ناجائز نفع کا جتنے فیصد   حصہ شیئرہولڈر کے پاس آیا ہے اتنا نفع  بلا نیتِ ثواب صدقہ کردے۔

7۔شئیرز ہولڈر ا س بات کا بھی اہتمام  کرے کہ  جس کمپنی  کے شئیرز خریدے ا س کے مجموعی  سرمائے کے تناسب میں اس کمپنی  کے سود پرلیے گئے  قرضوں کی مقدار بہت زیادہ   ( مثلا تینتیس فیصد 33٪ سے زیادہ) نہ ہو۔

8۔ جو شئیرز خریدا جارہا ہو اس کے پیچھے  موجود خالص نقد  اثاثوں (Net liquid assets) کی مقدار  اس شئیر کی بازاری   قیمت (Market  value )سے کم ہو۔

11۔ شئیرز کی خریدفروخت  کرنے میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ شئیر  خریدنے کے بعد  شئیر ہولڈر ان شئیرز  پرقبضہ  کرے، اس  کے بعد  ان کو فروخت کرے ۔شئیرز پر قبضہ کئے بغیر  انہیں  آگے فروخت  کرنا شرعاً درست نہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج  میں ڈے  ٹریڈنگ (ایک دن شیئرز خرید کر اسی دن بیچنا) میں حاضر  سودے کی  جوصورت  رائج ہے وہ یہ ہے کہ فوری یعنی نقد سودے(Spot Transections) میں سودا ہوتے ہی اس کا اندراج  فوراً ہی کے اے ٹی (Karachi Automated Trading) میں ہوجاتا ہے، جو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے  سودوں کا کمپیوٹر ائزڈ ریکارڈ ہوتا ہے، لیکن آج کل ہرسودے  کے دو کاروباری دنوں  کے بعد خریدار کو طے شدہ قیمت ادا کرنا اور بیچنے والے کو بیچے ہوئے  حصص کی ڈیلیوری  دیناہوتی ہے ۔ (جبکہ پہلے اس میں تین دن لگتے تھے )  جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ  کمپنی کے ریکارڈ میں سی  ڈی سی کے ذریعے خریدے گئے شئیرز خریدار کے نام منتقل کیے جاتے ہیں،ا سٹاک ایکسچینج  کی اصطلاح  میں اس کو ڈیلیوری  اورقبضہ کہاجاتاہے ۔

مذکورہ  صورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ جب تک خریدے   گئے شئیرز  سی ڈی سی کے ذریعہ  متعلقہ کمپنی  کے ریکارڈ میں خریدار  کے نام منتقل نہیں ہوجاتے،  انہیں آگے  فروخت کرنا شرعاً جائزنہیں، کیونکہ شرعاً کسی  بھی چیز کو آگے بیچنے  کے لیے اس  پر قبضہ   شرط ہے  ۔

اسٹاک ایکسچینج  کے مروجہ  طریق کار کے مطابق اگر چہ شئیرز خریدتے وقت KAT میں ان کا اندراج  ہوجاتاہے  اور شئیرز کا نفع ونقصان  بالآخر خریدار  کو ہی پہنچتا ہے لیکن چونکہ شئیرز کی خریدوفروخت درحقیقت کمپنی کے حصہ مشاع  کی خرید وفروخت  ہے اور حصہ  مشاع کی  بیع میں محض نفع ونقصان  کے خریدار کی  طرف منتقل ہونے کو شرعی قبضہ قرار نہیں دیاجاسکتا  اور مشاع حصہ پر حسی   قبضہ بھی ممکن  نہیں، لہذا اس صورت میں قبضہ  کے تحقق  کے لیے تخلیہ  کا پایا جانا ضروری   ہے اوراسٹاک  ایکسچینج  کے موجودہ قواعد وضوابط  کے مطالعے  سے یہ بات واضح  ہوتی ہے کہ سی ڈی سی (Central Depository Company)کے ذریعے  کمپنی کے  ریکارڈ میں شئیرز خریدار  کے نام منتقل ہونے سے  پہلے  تخلیہ نہیں پایا جاتا، لہذا مذکورہ صورت میں سی ڈی سی  کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ  میں  بیچے گئے  شئیرز خریدار کے نام  منتقل   ہونے سے  پہلے  انہیں   آگے فروخت کرنا دراصل قبضہ سے پہلے بیچنا  ہے جو کہ شرعاً جائز نہیں ۔

خلاصہ یہ کہ نقد سودے  کی صورت میں بھی خریدے گئے  شئیر ز سی ڈی سی کے ذریعہ  متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ یعنی ڈیلیوری  سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں، جس کو اسٹاک ایکسچینج کی اصطلاح میں ڈے  ٹریڈنگ (Day Trading) کہا جاتا ہے۔

12۔ فارورڈ  سیل(Forward Trading)یا فیوچر سیل (FutureTrading)[1] کی جتنی

صورتیں  اسٹاک ایکسچینج  میں رائج  ہیں وہ اپنی موجودہ شکل میں  شرعا ناجائز ہیں۔ 

13۔ اسٹاک ایکسچینج  میں رائج  بدلہ  کے معاملات (جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص بہت سے شیئرزخرید لیتا ہے، مگر اس کے پاس قیمت کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہوتی،  اس لیے وہ شخص یہی شیئرز کسی دوسرے شخص کو اس شرط پر بیچتا ہے کہ وہ ایک وقتِ مقرر پر زیادہ قیمت پر واپس خرید لے گا) بھی بیع قبل القبض  اوردوسری  شرط فاسد  ( یعنی زیادہ قیمت  پر واپس  خریدنے کی شرط  پر بیچنے ) کی بناء پر جائز نہیں۔

14۔  اسٹاک ایکسچینج  میں رائج  شئیرز کی بلینک سیل (Blank Sale)  اور  شارٹ سیل (Short Sale)[2]  بھی شرعا ممنوع اور ناجائز ہے، ان دونوں میں شیئرز بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہوتے، جبکہ  شریعت نے غیر مملوک چیز کی خریدوفروخت کو ناجائز قرار دیا ہے۔( ماخذہ بتصرف:فتاوى دارالعلوم كراچی: 803/47)

15۔ شیئرز کی خریدوفروخت میں الاختیارات (Options) کے سودے کرنا بھی جائز نہیں، جن کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعین قیمت پر ایک متعین وقت کے لیے شیئرز کی خریدوفروخت کا حق حاصل ہوتا ہے اور شیئرز بیچنے والے کے ہی ضمان میں ہوتے ہیں۔[3]

واضح رہے کہ جس شخص کو اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار اور اس سے متعلق شرعی احکام سے واقفیت حاصل ہو اسی کو اس کاروبار میں داخل ہونا چاہیے، اس کے علاوہ عام آدمی کے لیے یہ کاروبار شرعی مسائل پر عمل کرنے کے حوالے سے مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔

فیوچر اور فارورڈ سیل میں سودا حتمی ہوجانےکے بعد مستقبل کی کسی متعین تاریخ میں قیمت اور مبیع پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ فارورڈ سیل میں فریقین مستقبل کی متعین تاریخ میں قیمت اور مبیع پر قبضہ کرلیتے ہیں، جبکہ فیوچر سیل میں  عام طور پر متعین تاریخ کو  نقد رقم یا کسی دوسرے معاملے کے ذریعہ تصفیہ کر لیا جاتا ہے، شیئرز اور قیمت پر قبضے کی نوبت بہت کم آتی ہے۔

المعايير الشرعية: (ص545):

العقود الاجلة (Forward) العقود الاجلة البدلين التي تترتب آثارها في تاريخ محدد في المستقبل وتنتهي بالتسليم والتسلم في ذلك الموعد۔=

=المستقبليات في السلع (Futures) العقود الاجلة البدلين التي تترتب آثارها في تاريخ محدد في المستقبل  وتنتهي غالبا إما بالمقاصة بين أطرافها وإما بالتسوية النقدية وإما بعقود مماكسة وهي نادرا ما تنتهي بالتسليم والتسلم الفعلي۔

شارٹ سیل اور بلینک سیل میں فرق یہ ہے کہ  شارٹ سیل میں  فروخت کنندہ نے جتنے شیئرز بیچے ہوتے ہیں ان شیئرز کی مقررہ وقت پر خریداری کے لیے پیسوں کا انتظام کر رکھا ہوتا ہے، جبکہ بلینک سیل میں ایسا انتظام بھی نہیں ہوتا، باقی غیرمملوک بیچنے کے سلسلہ میں دونوں برابر ہیں۔

[3]المعايير الشرعية: (ص546):

الاختيارات: (Options):

عقد يتم بموجبه منح الحق وليس الالتزام لشراء أو بيع شيئ معين (كالأسهم والسلع والعملات والمؤشرات أو الدين) بثمن محدّد ولمدة محددة ولاالتزام فيه إلا على بائع هذا الحق۔

 

حوالہ جات
سنن الترمذي ت شاكر (3/ 527) باب ما جاء في كراهية بيع ما ليس عندك:
ذكر عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل [ص:528] سلف وبيع، ولا شرطان في بيع، ولا ربح ما لم يضمن، ولا بيع ما ليس عندك»: وهذا حديث حسن صحيح.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 120)باب الهبه، فصل في شرائط ركن الهبة:
 يجوز بيع المشاع وكذا هبة المشاع فيما لا يقسم وشرطه هو القبض والشيوع لا يمنع القبض لأنه يحصل قابضا للنصف المشاع بتخلية الكل ولهذا جازت هبة المشاع فيما لا يقسم وإن كان القبض فيها شرطا لثبوت الملك كذا هذا.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 180)فصل في شرائط الصحة في البيوع:
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر»
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 238)باب الإجارة الفاسدة:
 تسليم المشاع وحده لا يتصور، والتخلية اعتبرت تسليما لوقوعه تمكينا وهو الفعل الذي يحصل به التمكن ولا تمكن في المشاع، بخلاف البيع لحصول التمكن فيه، وأما التهايؤ فإنما يستحق حكما للعقد بواسطة الملك، وحكم العقد يعقبه والقدرة على التسليم شرط العقد وشرط الشيء يسبقه، ولا يعتبر المتراخي سابقا۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

21/ربیع الثانی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب