74633 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
بابا رکن الدین عرف قاسم بابا کا ۱۹۹۱ میں انتقال ہوا ہے ، مرحوم کی ملکیت میں ایک مکان اور 4/3 دکانات واقع کراچی مہاجر کیمپ7 نمبر میں ہیں ۔ بابا نے اپنے وفات سے 15 دن قبل اس مکان اور دکانات کو اپنے نام لیز کرنے کو کہا ، لیکن اس دوران بابا کا انتقال ہوگیا اور مکان ودکانیں ان کے نام لیز نہیں ہوسکیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے مولانا حسین احمد حقانی کے کہنے اور اس کی رضامندی سے دیگر بھتیجوں کی موجودگی میں مکان اور دکانیں بابا رکن الدین کی واحد بے اولاد بیوہ مسماۃ زینب30 سال تک مکان مذکورہ میں بذاتِ خود رہائش پذیر تھی اور دکانوں کا کرایہ وصول کررہی تھی اور سال 2021 رمضان المبارک کی 29 تاریخ کو بی بی مذکورہ کا انتقال ہوا،مرحومہ بی بی زینب کا سابقہ شوہر سے ایک بیٹا (محمد ہا رون ) بھی حیات ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں بتائیےکہ مکان کی ملکیت بابا رکن الدین کی ہے یا بیوہ بی بی زینب کی ہے ؟
وضاحت: قاسم بابا سے پہلے ان کا نکاح ایک اور شخص سے ہوا تھا جس سے ایک بیٹا ہے اورپھر اس کے انتقال کے بعد قاسم بابا کے ساتھ نکاح ہوا اور ان سے کوئی اولاد نہیں۔قاسم بابا کے انتقال کے وقت ان کی بیوی اور انکے بھتیجے موجود تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قاسم بابا مرحوم کی کل متروکہ جائیداد میں سے کفن ودفن کے اخراجات نکالنے، واجب الاداء قرض ادا کرنے اور ایک تہائی کی حد تک جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد باقی ترکہ میں سے چوتھائی حصہ مرحوم کی بیوه زینب کا تھا اور بقیہ ترکہ کے مستحق مرحوم کے دیگر ورثاء تھے، جومرحوم کی وفات کے وقت ان کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جانا چاہیے تھا، لیکن مرحوم کے بھتیجوں کا باہمی رضامندی سے ترکہ تقسیم نہ کرنا اور اتنے عرصہ تک بیوہ کو مکمل ترکہ استعمال کرنے کی اجازت دینا دراصل ان کی طرف سے تبرع اور احسان تھا، اس کے بعد جب مرحوم کی بیوہ زینب کا انتقال ہوا تو ان کا چوتھائی حصہ ان کے ورثاء کی طرف منتقل ہو گیا، لہذا اب حکم یہ ہے کہ قاسم بابا مرحوم کی وراثت میں سے چوتھائی حصہ مرحومہ زینب کے ورثاءکو ملے گا اور بقیہ ترکہ مرحوم قاسم بابا کے ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا، مذکورہ مکان بھی چونکہ مرحوم قاسم بابا کی وراثت ہے، اس لیے اس مکان میں بھی مرحوم کے تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوں گے اور مرحومہ کو ملنے والا حصہ اس کے بیٹے (جوسابقہ شوہر سے ہے) کی طرف منتقل ہو جائے گا، بشرطیکہ مرحومہ کا کوئی اور شرعی وارث نہ ہو۔
حوالہ جات
القرآن الكريم: [النساء: 12]:
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ}
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
22/ربيع الثانی 1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |