74694 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
شوروم میں 10 لاکھ روپے کی قیمت والی گاڑی کھڑی ہے ،تو گاہک اس گاڑی کے 5 لاکھ روپے ابھی خریدتے وقت دیتا ہے ،اور 5 لاکھ5 مہینے کی قسطوں پر دینا چاہتا ہے ،تو بائع گاڑی کی قیمت 12لاکھ روپے کر دیتا ہے ، کیونکہ یہ 2 لاکھ اضافی رقم اس لیے زیادہ کرتے ہیں کہ 5 مہینے تک بائع کے پانچ لاکھ روپے پھنس جاتے ہیں ،اگر یہ 5لاکھ کی رقم نہ پھنسے تو بائع اس رقم سے کم از کم 2 لاکھ روپے کما سکتا ہے ، تو بائع کا اس قیمت میں 2 لاکھ کا اضافہ کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ 2 لاکھ روپے سود میں آتے ہیں یا نہیں ؟جزاک اللہ خیراً
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قسطوں پر گاڑی یا کوئی اور چیز خریدنا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت میں کچھ اضافہ کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے،البتہ خریداری کے وقت عاقدین کا اس چیز کی ایک قیمت مقرر کرنا ضروری ہے،چاہے ادھار کی وجہ سے وہ قیمت اصل قیمت سے زائد ہو ، ادھار کی صورت میں نقد کے مقابلے لیں جو اضافی رقم گاہک ادا کررہا ہے وہ شرعاً سود نہیں ،بلکہ قیمت ہی کا حصہ ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ علیہ:ولا مساواة بين النقد، والنسيئة؛ لأن العين خير من الدين، والمعجل أكثر قيمة من المؤجل.(بدائع الصنائع:5/187)
ولو اشترى شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتى يبين؛ لأن للأجل شبهة المبيع وإن لم يكن مبيعا حقيقة؛ لأنه مرغوب فيه ألا ترى أن الثمن قد يزاد لمكان الأجل. (بدائع الصنائع:5/224)
أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد.
( بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة:1/12)
محمد طلحہ شیخوپوری
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
26 ربیع الثانی/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |