021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق نامہ کے ذریعے طلاق
74763طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

مسئلہ یہ ہے کہ آج سے تقریبا چھ(6) سال قبل (2015ء)  میں میرے خاوند نے اپنی پہلی بیوی مسماۃ  آصفہ نورین  کو بذریعہ پوسٹ پاکستانی یونین کونسل  میں ہر مہینے کے وقفے سے طلاق  کے تین نوٹس ارسال کیے تھے ، بعد ازاں اس کو عورت سے جو بچی تھی اس کے خرچے کا کیس بھی چلتا رہا ، جو میرے سسر ہینڈل کرتے رہے ۔ابھی تقریبا اڑھائی سال قبل  میرے خاوند اور ان کی سابقہ اہلیہ نے ملاقات کی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ہماری طلاق ہی نہیں  ہوئی ہے ۔ بقول میرے خاوند کے وہ کہتے ہیں میں نے بول کر نہیں دی اپنی والدہ  کے کہنے پر طلاق کے نوٹس بھیجے تھے ، اور سابقہ اہلیہ کے بقول وہ کہتی ہیں کہ یونین کونسل والوں نے مجھ سے سادہ کاغذ پر دستخط لیے تھے ،میری والدہ نے ریسیو کیے اسی طرح کے مختلف  بیانات ہیں ۔ ابھی میرے دو بچے  ہیں اور میں اپنے والدین کے گھر ہوں  ، خاوند خرچہ بھی نہیں دے رہے ہیں اور بضد  ہیں کہ میں ان کی پہلی بیوی کو ساتھ رکھوں ، تو مجھے رکھیں گے  ، جب کہ میں خود اس طلاق کے نوٹس پر خاوند کو دستخط  کرتے دیکھ  چکی ہوں ،اور سابقہ بیوی جو کہ ایک پارلر والی ہے ،وہ بھی اس طلاق کے واضح ہونے کی وجہ سے  چپقلش کے نتیجے میں علیحدہ ہو گئی ہے  برائے مہربانی مجھے  اس شرعی مسئلے سے سے آگاہی  دیتے ہوئے فتوی جاری کیا جائے ،تاکہ میں اپنے خاوند کو اس گناہِ کبیرہ سے روک سکوں کیونکہ  یہ میرے اور میرے بچوں کی زندگی کا بھی  مسئلہ  ہے  ،ایک طرف میرے خاوند اس طلاق کو قانونی مانتے بھی ہیں ، لیکن کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی تھی کہ اگر میرا رشتہ قائم ہو تو ،اس عورت سے ملاقات ہو جائے تو اسی لیے میری اس عورت سے ملاقات ہوئی  تھی۔علاوہ ازیں چار سال تک  یہ شخص اقرار کرتا رہا ہے کہ میری طلاق ہو گئی ہے  ، میں نے آصفہ کو طلاق دےدی ہے ،لیکن اب اچانک مکررہا ہے ۔طلاق کے متعلق دستاویزات ساتھ ارسال کر رہی ہوں ۔

   نوٹ:آصفہ کا شناختی کارڈ واپس  ولدیت پر بھی آچکا ہے ۔

توضیح از طرف سائلہ: شوہر پر گھر والوں کی طرف  طلاق دینے پر کوئی دباؤ نہیں تھا بلکہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کے رویے سے تنگ آکر لڑکے کی والدہ  نے  لڑکے کو طلاق کا مشورہ دیاتھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر صورت واقعہ حقیقت پر مبنی ہے اورسوال کے ساتھ منسلک طلاق نامہ درست ہو تو  آصفہ نورین کو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،لہذا ان دونوں کا ساتھ رہنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔تاہم اگر آصفہ نے اس دوران عدت گزار کر ،کسی دوسرے مرد سے نکاح کیا تھا ،اور وہاں سے بھی طلاق ہو چکی ہے تو عدت گزار کر پھر اس سابقہ شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے ۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ: كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة.
وعلق علیہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: (قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. (ردالمحتار:3/246)
وفی الفتاوی الھندیۃ:وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة.( الفتاوی الھندیۃ:1/378)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

 26 ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب