021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باہر سے گاڑی منگوانے کے لیے کسی اور کا پاسپورٹ خریدنا
74692خرید و فروخت کے احکامحقوق کی خریدوفروخت کے مسائل

سوال

کیا فرماتےہیں  مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں  کہ حکومت پاکستان کی   طرف سے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک اسکیم ہے وہ یہ کہ ہر ایک اوورسیز کو دو سالوں کے اندر ایک عدد گاڑی کسی بھی ملک سے منگوانے کی اجازت ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں ان کا ہونا ضروری ہے اگر شرائط پوری نہیں ہوتی تو گاڑی نہیں لاسکتے۔باہر سے جو بھی گاڑی آتی ہے وہ اوور سیز پاکستانیوں  کے پاسپورٹ پر آتی ہیں اور اس کےساتھ ساتھ  جس کے پاسپورٹ پر گاڑی آتی ہے اس کے لیے لازم ہے کہ اس گاڑی کی جو ڈیوٹی کسٹم والے لیں گے تو اتنی رقم باہر کے کسی بھی ملک سے پاکستان بھیجوانا پڑے گی بینک ٹو بینک اور دونوں اکاؤنٹ پاسپورٹ والے کے ہونے چاہییں اس کی بھی کچھ شرائط ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ گاڑی منگوانے کے لیے پاسپورٹ اور ڈیوٹی کی رقم پاکستان بھیجوانا ضروری ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ زیادہ تر مزدور طبقہ بیرون ملک جاتا ہے ان کے پاس یہ سہولت موجود  ہوتی ہے کہ وہ گاڑی منگوائیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس پاسپورٹ تو ہوتا ہے لیکن ان کے پاس اکثر  ڈیوٹی کی رقم نہیں ہوتی اور بعض لوگوں کے پاس رقم بھی ہوتی ہے لیکن وہ گاڑی لینے کی استطاعت نہیں رکھتے تو یہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا پاسپورٹ کسی ایجنٹ کو یا کوئی  ایسا شخص جو گاڑی منگوانا چاہتا ہے اس کو بیچ دیتے ہیں یعنی حکومت نے جو اسکیم ان کو دی ہوتی ہے وہ کوئی اور استعمال کرلیتا ہے اور یہ اس اسکیم کے بدلے اس شخص سے  رقم لے لیتے ہیں ۔تقریبا تمام اوور سیز یہی کرتے ہیں ، جس کو اس بارے میں معلومات ہوں وہ اپنا پاسپورٹ کسی کو بیچ دیتے  ہیں اور پاسپورٹ خریدنے اور بیچنے کا ایک پورا کاروبار چلتا ہے۔تمام شوروم والے بھی یہی کرتے ہیں کہ کسی اور کے پاسپورٹ پر اپنے لیے گاڑیاں منگوالیتے ہیں اور پھر وہ گاڑیاں لوگوں کو بیچ دیتے ہیں ۔ کافی سارے لوگوں کا روزگار  اسی سے وابستہ ہے  ،شوروم والے ،اوورسیز ،پاسپورٹ خریدنے والے ایجنٹ اور بھی کافی سارے لوگ،کیونکہ اگر اوورسیز اپنی اس اسکیم کو کسی کو فروخت نہ کریں تو وہ ضائع ہو جائے گی اور خود وہ اس کو استعمال کرنے کے قابل نہیں ۔ اسی طرح باہر سے آنے والی گاڑیاں بھی بند ہو جائیں گی، کیونکہ جو باہر سے گاڑی منگوانا چاہتا ہے ، اس کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے ،اور جس کے پاس سہولت ہے وہ اس قابل نہیں ہے ۔

گزارش یہ تھی کہ صورتِ مسئلہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلے کی پوری وضاحت  فرمائیں اور ان سوالات کے جوابات بھی عنایت فرمائیں ۔1- کسی کے پاسپورٹ پر گاڑی منگوانا جائز ہے کہ نہیں ؟2- اوور سیز پاکستانیوں کو اس اسکیم کو بیچنا جائز ہے کہ نہیں ؟3- پاسپورٹ خریدنے اور بیچنے  کا کاروبار جائز ہے کہ نہیں ؟ اگر یہ سب جائز نہیں تو اس کی جائز صورتوں کی وضاحت فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی کے پاسپورٹ پر گاڑی منگوانا اس صورت میں  جائز ہو گا ، جب  کہ یہ غیر قانونی نہ ہو ۔حکومتی قانون میں صرف پاسپورٹ والے آدمی کو باہر ملک سے گاڑی منگوانے کی اجازت ہوتی ہے، اُس کا پاسپورٹ لے کر کسی دوسرے شخص کو باہر سے گاڑی منگوانے کی قانونًا اجازت نہیں ہوتی۔ضابطہ یہ ہے کہ حکومت اگر کوئی ایسا  قانون بنائے جس  میں  مصلحت عامہ کا خیال رکھا گیا  ہو تو اس قانون کی پاسداری شرعًا بھی لازم ہوتی ہے، نیز اس قانون کی خلاف ورزی  میں دھوکہ اور جھوٹ بھی ہے،جو کہ حرام ہے۔

اسی طرح پاسپورٹ حکومت کی طرف سے آمد و رفت اور درآمدات و برآمدات کا اجازت نامہ اور  ایک حق ِ محض ہے ،جس کو وہ شخص خود تو استعمال کرسکتا ہے ،لیکن اس کو فروخت نہیں کر سکتا ، کیونکہ یہ کوئی مال نہیں جس کو فروخت کیا جا سکے، لہذا پاسپورٹ دینے والے شخص کے لیے اپنے پاسپورٹ کو استعمال کرنے کی اجازت دینا اور اس کے بدلے رقم وصول کرنا جائز نہیں۔جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پاسپورٹ والے کے ساتھ مشترکہ طور پر  گاڑی  لی جائے ،وہ اس طرح کہ  کچھ  رقم پاسپورٹ والے کی ہواور باقی رقم دوسرے شریک کی،  گاڑی پاکستان پہنچنے پر پاسپورٹ والے کا حصہ  اتنی رقم کے عوض خریدا جائے جتنا نفع اسے دینے کا ارادہ ہو۔

حوالہ جات
قال العلامہ الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ: الكذب ‌مباح ‌لإحياء ‌حقه ‌ودفع ‌الظلم ‌عن ‌نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام قال: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون}
وعلق علیہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: «كل كذب مكتوب لا محالة إلا ثلاثة الرجل مع امرأته أو ولده والرجل يصلح بين اثنين والحرب فإن الحرب خدعة» ، قال الطحاوي وغيره هو محمول على المعاريض، لأن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]- وقال - عليه الصلاة والسلام - «الكذب مع الفجور وهما في النار»​​​ .
(ردالمحتار:6/427)                  
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ علیہ: طاعة ‌الإمام ‌فيما ‌ليس ‌بمعصية ‌فرض.
( بدائع الصنائع:7/140)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: (قوله: ‌لا ‌يجوز ‌الاعتياض ‌عن ‌الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها.
(ردالمحتار:4/518)
قال العلامۃ الحصکفي رحمۃ اللہ علیہ: طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض
وعلق علیہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: والأصل فيه قوله تعالى {وأولي الأمر منكم} [النساء: 59] وقال - صلى الله عليه وسلم - «اسمعوا وأطيعوا ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع» وروي «مجدع» وعن ابن عمر أنه - عليه الصلاة والسلام - قال«عليكم بالسمع والطاعة لكل من يؤمر عليكم ما لم يأمركم بمنكر» ففي المنكر لا سمع ولا طاعة. (ردالمحتار:4/264)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

26 ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب