021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پمپ سے پانی کھینچنا(پانی کی موٹرسے پانی کھینچنا)
74693جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں ہفتے میں دو دن  ایک ایک گھنٹے کے لیے پانی آتا ہے ،تو  بعض لوگوں نے گھروں میں پمپ رکھے ہوئے  ہیں جب پانی آنے لگتا ہے وہ اپنا پمپ چالو کردیتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے گھروں میں پانی کا پریشر کم ہوجاتا ہے،   جب انہیں منع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پانی کا بل بھرتے ہیں مفت میں نہیں لیتے ،  جبکہ علاقے کی انتظامیہ کی طرف سے بھی پمپ لگانے  منع ہے ، آیا  شریعت کی نگاہ سے پمپ لگانا جائز ہے  یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو پانی کی اتنی مقدار ضرور پہنچائے  جس سے ان کی لازمی ضروریات(طہارت ،کپڑے دھونا وغیرہ )پوری ہو سکیں ۔ جبکہ شہریو ں پر لازم ہے کہ وہ پانی کا معتدل استعمال کریں اور وقت  پر ٹیکس  ادا کریں ۔گویا ایک مناسب مقدار میں پانی جیسی بنیادی ضرورت کا حصول ہر شہری کی ضرورت ہے۔  اگر بغیر پمپ کے بقدرِضرورت پا نی مل رہا ہےاور پمپ لگانے کی وجہ سے دوسرے کو بقدرِضرورت بھی نہیں مل رہا تو پمپ لگاکر پانی کھینچنا جائز نہیں اور  اگر اتنی مقدار میں بھی  پانی میسر نہ ہو جو آپ کا حق ہے  تو اس مقدار کی حد تک وصولی کے لیے پمپ لگانے کی گنجائش ہوگی۔جبکہ پمپ کے ذریعے اپنے حق سے زیادہ پانی وصول کرنا جائز  نہیں ہو گا کیونکہ اس کی وجہ سے دیگر صارفین کی حق تلفی ہو سکتی ہے ۔

حوالہ جات
قال العلامہ الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ: (و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره. (رد المحتار:6/298)
 
قال العلامۃ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ:الضرر لا يزال بالضرر... وكتبنا في شرح الكنز في مسائل شتى في كتاب القضاء: ولا يأكل المضطر طعام مضطر آخر ولا شيئا من بدنه.
(الأشباہ والنظائر:74)
 
وقال ایضا:الضرورات تبيح المحظورات ،ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة، وإساغة اللقمة بالخمر، والتلفظ بكلمة الكفر للإكراه وكذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع الأداء من الدين بغير إذنه ودفع الصائل، ولو أدى إلى قتله.
وزاد الشافعية على هذه القاعدة بشرط عدم نقصانها.
ولكن ذكر أصحابنا رحمهم الله ما يفيده؛ فإنهم قالوا: لو أكره على قتل غيره بقتل لا يرخص له، فإن قتله أثم؛ لأن مفسدة قتل نفسه أخف من مفسدة قتل غيره. (الأشباہ والنظائر:73)
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ علیہ:والأصل أن لا يمنع الإنسان من التصرف في ملك نفسه إلا أن الكف عما يؤذي الجار أحسن.(بدائع الصنائع:7/29)
وقال ایضا:ولأبي حنيفة - رحمه الله - أن حرمة التصرف في ملك الغير وحقه لا يقف على الضرر بل هو حرام سواء تضرر به أم لا ألا ترى أن نقل المرآة والمبحار من دار المالك إلى موضع آخر حرام وإن كان لا يتضرر به المالك والدليل عليه أنه يباح التصرف في ملك الغير وحقه برضاه ولو كانت الحرمة لما يلحقه من الضرر لما أبيح؛ لأن الضرر لا ينعدم برضا المالك وصاحب الحق دل أن التصرف في ملك الغير وحقه حرام أضر بالمالك أو لا.(بدائع الصنائع:6/265)

محمد طلحہ شیخوپوری

دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی

 26ربیع الثانی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب