75119 | نماز کا بیان | قضاء نمازوں کا بیان |
سوال
اگر کسی شخص کی کئی سال کی نمازیں قضا ہوئی ہوں، اسے نہ کل قضا شدہ نمازوں کی مجموعی تعداد یاد ہو، نہ ہر وقت کی قضا شدہ نمازوں کی الگ الگ تعداد یاد ہو، تو اب وہ ان کی قضا کیسے کرے گا؟ کیا ترتیب سے پڑھنا ضروری ہے ؟ زیادہ نمازیں قضا ہوں تو ترتیب یاد نہیں رہتی، یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کس وقت کی کتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں۔
o
جب قضا نمازیں چھ سے زیادہ ہوجائیں تو ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جس شخص کےذمے زیادہ قضا نمازیں باقی ہوں، لیکن اسے صحیح تعداد یاد نہ ہو تو وہ پہلے محتاط اندازے کے مطابق ا ن تمام نمازوں کا حساب لگا کرکاپی میں یا کسی دوسری جگہ محفوظ کرلے۔ مثلا ایک شخص غور و فکر کر کے اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی فجر کی 500 نمازیں رہی ہوں گی، ظہر کی 200، اسی طرح عصر، مغرب، عشاء، اور وتر کی تعداد کا اندازہ لگالیا، تو وہ ہر نماز کی اس تعداد کو لکھ لے۔ پھر ان نمازوں کو لوٹانا شروع کرے،اور جس وقت کی جتنی قضا نمازیں لوٹاتا جائے، ان کی تعداد شروع میں لکھی ہوئی تعداد سے کم کرتا جائے۔ اس طرح جب شروع میں لگائے ہوئے اندازے کے مطابق قضا نمازوں کی تعداد مکمل ہوجائے تو اب اس کا ذمہ فارغ سمجھا جائے گا۔ تاہم قضا نمازیں لوٹانے کے ساتھ ساتھ انہیں بر وقت ادا نہ کرنے پر توبہ واستغفار، اور آئندہ نماز قضا نہ کرنے کا پکا عزم بھی کرلے۔ (باستفادۃ من فتاویٰ رشیدیہ، ص:352)
نیز جب قضا نمازیں لوٹانا شروع کرے تو اس کے ساتھ یہ وصیت بھی لکھ دے کہ اگر قضا نمازیں مکمل لوٹانے سے پہلے مجھے موت آئے تو میرے لکھے ہوئے حساب کے مطابق موت کے وقت جتنی نمازیں میرے ذمے رہتی ہوں، میرے ترکہ کے ایک تہائی مال سے ان کا فدیہ ادا کردیا جائے، پھراگر زندگی میں قضا نمازوں کی ادائیگی مکمل ہوجائے تو یہ وصیت کاٹ دے۔
حوالہ جات
.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
26/ربیع الثانی /1443ھ
n
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |