021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم ترکہ(ایک بیوہ چار بیٹے اور دوبیٹیوں میں میراث کی تقسیم)
74482میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

امان خان کا انتقال ہوا تو اس کے ورثاء میں دوسری بیوی( پہلی کا انتقال شوہرکی زندگی میں ہوا تھا) پہلی بیوی سے 2بیٹےاور 1 بیٹی جبکہ دوسری سےبھی 2بیٹے اور 1 بیٹی تھی،ابھی ترکہ کی تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ دوسری بیوی کا 1بیٹا انتقال کرگیا،بعدازاں ان بھائیوں نے آپس میں اس طرح سے تقسیم کی کہ کل جائیداد کو دوحصےکردیاآدھا پہلی بیوی کی اولاد کو ملا اور آدھا دوسری بیوی کی اولادکو۔(جبکہ دوسری بیوی کا ایک بیٹا فوت بھی ہوچکا تھا،لیکن اس کا حصہ بھی اس کے حقیقی بھائی کو دیا گیا نیز اپنی بہن کا حصہ بھی اس بھائی کے پاس رہا گویا کہ دوسری بیوی کی اولاد کو کل جائیداد کا جو نصف ملا وہ سارا کا سارا ان کے حقیقی بھائی کے پاس رہا) جائیداد کی یہ تقسیم اسی طرح رہی سب اس پر راضی بھی رہےحتی کہ دوسری بیوی پھرپہلی بیوی کے دونوں بیٹے اور ایک بیٹی کا بھی انتقال ہوا اور دوسری بیوی کےبیٹے کا بھی انتقال ہوااور اس کی اولاد نے (کل مال کا نصف جو ان کے والد کوملا تھا) جائیداد آپس میں تقسیم بھی کرلی،بلکہ زیادہ تر نے بیچ بھی دی،اس سب کے وقت ان کی حقیقی پھوپھی حیات تھیں۔اب حال ہی میں اس کا انتقال ہوا تو اس کی اولاد میں سے ایک بیٹے نے اپنےسوتیلے مامؤوں کی اولاد پر یہ کیس دائرکیا کہ مجھے میری ماں کا حصہ دیا جائے،حالانکہ اس کی والدہ کا حصہ ان کےحقیقی ماموں کو اور پھر اس کی اولاد کو دیاگیا تھا جس کا وہ لوگ اقرار بھی کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہیکہ کہ ہم تو سب کچھ بیچ چکے ہیں کچھ دینے کیلیےہے ہی نہیں جبکہ اس مدعی کے باقی بھائیوں اوربہن کا بھی کہنا ہیکہ ہمارا آپ (سوتیلے ماموں زادوں) کے پاس کوئی حق نہیں اگر ہے تو حقیقی ماموں زادوں کے پاس ہے جو کہ ہماری والدہ نے کبھی مانگا ہی نہیں تو ہم نے بھی لینا ہی نہیں. اب سوال یہ ہیکہ

۱۔اس کی والدہ کی رضامندی کے باوجود کیا اس آدمی کا مطالبہ درست ہے؟

۲۔اس کا حق حقیقی ماموں زادوں کے پاس ہے یا سوتیلے ماموں زادوں کے پاس؟

۳۔اگر نہیں تو اس آدمی کا اپنے سوتیلے ماموں زادوں کی زمینوں میں دخل اندازی کرنا ٹھیک ہے؟

۴۔اس حصہ کیلیے ان سے لڑنا جھگڑنا،کیس و دعوی کرنا ٹھیک ہے؟

۵۔اگر ان سوتیلے ماموں زادوں کے پاس حق ہے تو کل مال کا کتنا فیصد؟

۶۔اور جو اس کے حقیقی ماموں زاد لیکر ان کا حصہ بیچ چکے ہیں اس کا کیاحکم ہوگا؟

برائے مہربانی اس کا جواب اور حل جلد از جلد عنایت فرمائیں کیونکہ یہ کیس اب عدالت میں چل رہا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔ یہ شخص صرف اپنی والدہ کو اس کے والداور والدہ سے ملنے والے حصہ میراث میں سے صرف اپنے حصہ کے بقدر وصولی کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے۔

۲۔اگر کوئی وارث اپنا حصہ میراث کچھ لئے بغیر چھوڑدے تو اس سے اس کا حصہ میراث ساقط (ختم)نہیں ہوگا، جب تک تقسیم کرکے قبضہ میں لینے کے بعد اسے ہبہ نہ کردے،اس لیےنانی کا حق محض رضامندی سے چونکہ ساقط نہیں ہوا،( احسن الفتاوی:ج۹،ص۲۷۶)لہذا اس کا حق حقیقی ماموں زادوں کے پاس تویقینا ہے،لہذا ان سے اپنے حصے کے بقدر رجوع بہر حال کرسکتا ہے،البتہ سوتیلے ماموں  کی اولادسے رجوع  کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ اگرجائیداد کی تقسیم کے وقت نانی نےاپنی رضامندی سے اپنی سوکن کی اولاد کے ساتھ تقسیم کے طور پر اپنا حق چھوڑدیاہوتو ایسی صورت میں ان سےرجوع نہیں کرسکتا،ورنہ (یعنی اگر اس تقسیم میں اس کی رضامندی ہی شامل نہ تھی۔)توایسی صورت میں سوتیلے ماموں  کی اولادکے پاس  سے بھی صرف وہ اپنی نانی کے حصہ یعنی نانا کے کل ترکہ کے کل مالیت کے سولہواں حصہ میں سے اپنی والدہ کے حصہ کے بقدرمیں سے اپنے حصہ  کو طلب کرسکتا ہے۔

۳۔ اپنے حصہ سے زائد کے مطالبہ کا حق نہیں، اور نہ ہی  اس سے زائد ان کی جائیداد میں دخل اندازی کا حق ہے۔

۴۔ اپنے حق کی وصولی کی حد تک قانونی کاروائی کرسکتا ہے۔

۵۔ اس کا جواب نمبر دو میں ہوچکا۔

۶۔ بشرط مذکور بالاان سے اپنے والدہ کو ان کے اپنے والدین سے ملنے والے حصہ میراث میں سے اپنے اوربصورت اجازت اپنے دیگرموکلین کے حصہ کے مطالبہ کا بھی حق ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (15/ 38)
 فإن كان في الميراث بينهم رقيق وثياب وغنم ودور وضياع فاقتسموها بينهم وأخذ كل واحد منهم صنفا جاز ذلك لوجود التراضي منهم على إنشاء المعاوضة، وإن رفعوا إلى القاضي قسم كل صنف بينهم على حدة ولا يضيف بعضها إلى بعض؛ لأن للقاضي ولاية التمييز بالقسمة وإنما يغلب معنى التمييز إذا قسم كل واحد من صنف على حدة ولأن القاضي يعتبر المعادلة في كل ما يتهيأ له اعتباره، وقسمة كل صنف على حدة أقرب إلى المعادلة فأما اتفاقهم على القسمة يعتمد التراضي دون المعادلة وإذا تمت بتراضيهم بعد ذلك كيف وقعت القسمة.
جامع الفصولين (2/ 20)
وذكر لو قال وارث تركت حقي لا يبطل حقه إذ الملك لا يبطل بالترك والحق يبطل به حتى أن أحد الغانمين لو قال قبل القسمة تركت حقي بطل حقه وكذا لو قال المرتهن تركت حقي في حبس الرهن بطل.
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (3/ 354)
لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي،
اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء،

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۸ربیع الثانی۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب