021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کا والدہ سے ان کی زندگی میں مکان میں حصہ طلب کرنا
73208ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

        میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے رہائش کےلیے ایک مکان لے کردیا اورایک چھوٹا سا فلیٹ بھی لے کردیا، مکان میں میں اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوں اورفلیٹ کے کرإئے سے میراخرچہ چلتاہے، میرے شوہر شدید بیمار ہیں اورایک آنکھ سے نا بینا ہیں اورذہنی توازن بھی اس کی ٹھیک نہیں ہے،سب سے بڑا بیٹا عدیل احمد بھی پیدائشی طورپر ذہنی معذورہے ،بڑے بیٹے کو میں نے رہائش کے لیے اوپر کے گھر کا ایک حصہ دیا ہوا ہے ،چھوٹے دونوں بچے نوکری کرتے ہیں اوراپنی آمدنی کے مطابق گھر کا خرچہ چلاتے ہیں، اب میرا بڑا بیٹا مکان میں حصہ مانگ رہاہے، آپ بتائیں کہ مجھے جو مکان اورفلیٹ میرے والد نے لیکردیا تھا، اس میں مجھے اختیارہے کہ نہیں؟ جبکہ میرے شوہر نے اپنا مکمل کاروبار واثاثہ بڑے بیٹے کو دیدیا ہے، میرے آمدنی کا اورکوئی ذریعہ نہیں ہے ،آپ رہنمائی فرمائیں کہ میں اپنی ملکیت کا حق استعمال کرسکتی ہوں یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

        جومکان اورفلیٹ زندگی میں والد نے آپ کےلیے لیکرآپ کےنام کردیئے تھے اوران پراپنا تصرف ختم  کرکے ان کا قبضہ بھی آپ  کودیدیاتھا تواس مکان اورفلیٹ کے مالک صرف آپ  ہیں ،اورکوئی نہیں ،آپ کو اس میں اپنی زندگی میں مکمل اختیارات حاصل ہیں، زندگی میں بیٹوں کا اس پر کوئی حق نہیں ہے لہذا آپ کے بڑےبیٹے کا اس میں حصے کا مطالبہ کرنا ٹھیک نہیں ،کیونکہ زندگی میں انسان اپنے مال کا خود مالک ہوتاہے اس کی اولاد مالک نہیں ہوتی،لہذااولاد والدین سے ان کی زندگی میں میراث کا مطالبہ نہیں کرسکتی ، کیونکہ میراث موت کےبعد تقسیم ہوتی ہے نہ کہ زندگی میں،ہاں اگر والدین اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے بغیر کسی جبرواکراہ کے اولاد کوکچھ دینا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے مگرزندگی میں اولاد کو کچھ دیناوراثت نہیں بلکہ عطیہ ہوتاہےاوراولاد کو عطیہ دینے کاشرعی اصول  یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی میں تفریق نہ کی جائےاورسب کو برابر سرابردیاجائے، ایسا کرنا جائز نہیں کہ بعضوں کو دیا جائے اوردیگر کو محروم کیاجائے،جیسے آپ کے شوہر نے کیاہے کہ سب کچھ صرف بڑے بیٹے دیدیا ہے،ہاں اگر والدین دیناچاہتے ہیں مگرخود  صاحب استطاعت ہونے کی وجہ سے  اولاد میں سے کوئی نہ لےتوپھروالدین کو فرق کرنے کا گناہ میں نہیں ہوگا،کیونکہ اولاد نے خود اپناحصہ چھوڑا ہے،بہرحال اولاد والدین کی زندگی میں ان کے مال میں حق کا  مطالبہ نہیں کرسکتی  ۔

حوالہ جات
وفی المبسوط للسرخسي ۱۲؍۶۵
شرط القبض منصوص علیہ في الهبۃ فیراعي وجودہ علی أکمل الجهات التي تمکن.
وفی المنصف لابن أبي شیبۃ ۱۰؍۵۲۰ رقم: ۳۸۹۵:
عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: ما بال أحدکم ینحل ولدہ نحلاً لا یحوزها ولا یقسمُہا ویقول: إن متُّ فهولہ، وإن مات رجعتْ إلي وأیم اللّٰہ لا ینحل أحدکم ولدہ نحلاً لا یحوزها ولا یقسمہا، فیموت إلا جعلتها میراثاً لورثتہ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت.
الفقہ الإسلامي وأدلتہ ۴؍۶۹۱
وفي الجملۃ: وإن الخلفاء الراشدین وغیرهم اتفقوا علی أن الهبۃ لا تجوز إلا مقبوضۃ محوزۃ.
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 176)
عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر : أعطانى أبى عطية فقالت له عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال فأتى النبى -صلى الله عليه وسلم- فقال : إنى أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتنى أن أشهدك يا رسول الله قال :« أعطيت سائر ولدك مثل هذا ». قال : لا قال :« فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ». قال فرجع فرد عطيته. رواه البخارى فى الصحيح عن حامد بن عمر وأخرجه مسلم من وجهين آخرين عن حصين.
شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 84):
 فقالوا ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في العطية ليستووا في البر ولا يفضل بعضهم على بعض فيوقع ذلك له الوحشة في قلوب المفضولين منهم۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (ج 13 / ص 316)
  وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا   يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث   للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض. وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح۔                                    
   رد المحتار - (ج 24 / ص 42)
( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.                                                                                               
سوی بینہم یعطي الإبنۃ مثل ما یعطي للإبن وعلیہ الفتویٰ، هٰکذا في فتاویٰ قاضي خان، وهو المختار، کذا في الظهیریۃ۔ (الفتاوی الهندیۃ / الباب السادس في هبۃ الصغیر ۴؍۳۹۱ زکریا)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

    دارالافتاء جامعۃ الرشید

   24/10/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب