021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماہِ رمضان میں سحری بندکرنے اوراذانِ فجر کا بہتروقت
74744نماز کا بیاناوقاتِ نمازکا بیان

سوال

       کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

       ہمارے علاقے میں رمضان کے مہینہ میں اذان اورنمازِفجرکے اوقات میں ائمہ مساجد کا آپس میں شدیداختلاف ہے جس کی وجہ اکابرین کا اس مسئلے میں اختلاف کرناہے،ائمہ کرام کا یہ اختلاف عوام کےلئے انتہائی تشویشناک ہے،اس لئے ہمارے "مجلس العلماء" نے علاقے کے تمام ائمہ مساجد وعلماء کے مابین ایک مجلس طے کی اوراس میں آپ صاحبان کی طرف سے دی گئی صورت پیش کی جس میں بناء بر احتیاط دونوں اقوال کے مابین تطبیق دی گئی ہے جس پر تقریباًسب نے رضامندی واطمینان کا اظہارکیا، البتہ ایک بات میں جس کو ہم حل نہ کرسکیں اس میں آپ صاحبان کی رہنمائی درکار ہے،امید ہےآپ کی رہنمائی ان شاء اللہ تعالی ہمارے لیے باعثِ اتفاق واتحاد ہوگی، مجلس میں اس بات پر اتفاق ہواکہ نمازِ فجر 15درجہ نقشہ کے مطابق اورانتہاءِ سحور18درجہ نقشہ کے مطابق کی جائے گی،باقی اذان میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ 15درجے والے نقشہ کے مطابق ہو تو دیہات کے لوگ چونکہ اذان تک کھانے پینے کے عادی ہوتے ہیں اورباوجود ہمارے سمجھانے کے اذان تک کھاتے رہتے ہیں اس لیے فسادِ روزہ کا قوی اندیشہ ہے اوراگر18والے نقشے کے مطابق دی جائےتووہ علماء جن کا 15درجے پر شرح صدرہے ان کے نزدیک یہ اذان قبل ازوقت ہوگی جس پروہ راضی نہیں ہوں  گے۔

              تو اب مذکورہ دونوں صورتوں میں آپ کونسی صورت کو اقرب الی الحق سمجھتے ہیں ؟ پہلی صورت کہ علماء اپنی ذمہ داری پوری کرکے عوام کوسجھائیں کہ اذان سے اتنی دیر پہلے روزہ بند کیا کرو پھر چاہے وہ احتیاط پر عمل کریں یا نہ کریں یا دوسری دوصورت اختیارکرلی جائے اورجن کے نزدیک یہ اذان قبل از وقت ہے ان کو یہ کہاجائے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اذان ِفجرقبل از وقت بھی جائزہے تو کیا اس حکمتِ عملی کےلیے مفتی بہ قول سے مرحوح قول کی طرف عدول جائز ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ پندرہ اوراٹھارہ درجےکا اختلاف جوعلماء میں مشہورہے ،یہ دونوں ہی قول دلائل اورمشاہدات پر مبنی ہیں، لہذا دونوں میں سے جس قول پر بھی کوئی عمل کرکے سحر اورافطارکرےاورنمازپڑھے  اس کا روزہ اورنماز صحیح ہوگا،لہذا اختلاف  اورشک کی  کوئی ضرورت نہیں،اورعوام کوبھی علماء کے درمیان موجود اس طرح کے علمی اختلافات میں 

پڑنے کی ہرگزضرورت نہیں، بس عوام عمل پر توجہ دیں اورجس کے علم اورتقوی  پر اعتماد ہواس کےقول پرعمل کریں۔

تاہم عبادات میں چونکہ  احتیاط کا پہلو اختیار کرنا بہترہوتاہے اورروزے میں احتیاط یہ ہے کہ سحری جلدبند کی جائے جبکہ نماز میں احتیاط یہ ہےکہ وہ ذرا تاخیرسے پڑھی جائے تاکہ فجرکی نماز بلاشک وشبہہ درست ہوجائے،اس لیے ہمارے ہاں سے جو نقشے جاری  کیے جاتے ہیں ان میں ان دونوں باتوں کی رعایت ہوتی ہے، انتہاءِ سحرکو 18درجے پر رکھاجاتاہے اوراذانِ فجرکو15درجےپر، اس طرح دونوں قولوں پر عمل بھی ہوجاتاہےاوراحتیاط بھی ہوجاتی ہے ۔

سحری کاتعلق وقت کے ساتھ ہے،اذان کےساتھ نہیں،قول چاہے پندہ کا لیا جائے یا اٹھارہ کا بہرحال سحری کو اذان ِفجر سے جوڑنے میں مشکلات حل نہیں ہوں گی، اس لیے کہ روزہ ٹھیک ٹھیک صبح صادق کے وقت پر یا اس سےکچھ پہلے بند کرناضروری ہے جبکہ اذان کا راجح قول کے مطابق صبحِ صادق کے بعد دیاجانا ضروری ہے،اگر اذان پر سحری بند کی جائے تواگراذان وقت سے پہلے دی جائے تو راجح قول  کے مطابق وہ نہیں ہوگی اوراگر وقت کے بعددی جائے اوراس وقت تک کھانا،پینا جاری رکھاجائے تو روزہ نہیں ہوگا ،لہذا ان کودونوں کو الگ الگ رکھاجائے جس کی احسن صورت یہ ہے کہ 18درجے پرصبح صادق ہونےسے دو منٹ پہلے سائرن بجاکر سحری بند کرائی جائے اورضرورت ہوتو یہ اعلان بھی کرایاجائےکہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے، لہذا سحری بندکی جائے،اذانِ فجران شاء اللہ تعالی اب سے پندرہ کے بعد نمازِفجرکےلیے دی جائے گی ۔اورپھرجب15درجےکے مطابق فجر کا وقت طلوع ہوجائے تو اس  کےایک دومنٹ  بعد نمازِفجر کےلیے اذان دی جائے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی   سحری کامعاملہ اذانِ فجرسے الگ رکھا جاتا تھا تہجدکےلیے جگانےاورسحری کےلیےحضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے اورنمازِفجر کےلیےطلوعِ فجرکے بعد حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ الگ سےاذان دیتے تھےاورجب بلال کی اذان لوگوں کےلیے اشتباہ کاذریعہ بننے لگی تو رسول اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا کہ اس کو ختم کرتے یا حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کے اذان کو مقدم کرتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن مکتوم کے اذان کو اپنے وقت پر رکھ کرلوگوں کو سمجھایاکہ لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال اورایک اورحدیث میں فرمایا فإن بلالا يؤذن ليوقظ نائمكم وليرجع قائمكم،اسی طرح علماء کوبھی چاہیے کہ اذانِ فجر 15کے بعد دیں اورلوگوں کی اشتباہ کی وجہ سے اس کو مقدم نہ کریں تاکہ مختلف فیہ نہ بنے اورسحری بندکرنے کےلیے سائرن بجایاجائےاورضرورت ہوتو اعلان بھی کیاجاسکتاہے۔

رمضان میں اذان کے بعد جلد جماعت کھڑی کی جائے تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو جو سحری کے وقت سے جاگ رہےہوتے ہیں اورانتظارکررہےہوتے ہیں ،رمضان میں تکثیر ِجماعت اورلوگوں کو تکلیف سے بچانے کی خاطراندھیرے ہی میں نمازپڑھناافضل ہے،رمضان میں اسفاریعنی خوب روشنی کرکے نمازپڑھنا مستحب نہیں،اس سےایک تو لوگوں کو تکلیف ہوگی اوردوسرا یہ ہے بہت سارے لوگ نمازنہیں پڑھیں گے یا الگ پڑھ کرجلد سوجائیں گے۔

حوالہ جات
”عن ابن عباس:﴿وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر﴾ يعني الليل من النهارفأحل لكم المجامعة والأكل والشرب حتى يتبين لكم الصبح، فإذا تبين الصبح حرم عليهمالمجامعة والأكل والشرب حتى يتموا الصيام إلى الليل“(تفسیرطبری،ج03،ص511، موسسۃ الرسالۃ)
المنتقى لابن الجارود - (ج 1 / ص 435)
 عن ابن مسعود ، رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : « لا يمنعكم أذان بلال من سحوركم فإن بلالا يؤذن ليوقظ نائمكم وليرجع قائمكم ، وليس ما يكون هكذا ولا هكذا حتى يكون هكذا وهكذا يعني الفجر »
الأوسط لابن المنذر - (ج 4 / ص 18)
وإذا كان للمسجد مؤذنان أو أكثر فلا بأس أن يؤذن أحدهم قبل طلوع الفجر ليتنبه النائم بأذانه ويرجع القائم فيستعدان للصلاة ، ثم يؤذن الآخر بعد طلوع الفجر فيكون أذانه دعاء إلى الصلاة ، وإعلاما بأن الصلاة قد حضر وقتها ليشهدها الناس ، وفي خبر ابن مسعود بيان العلة التي لها كان أذان بلال .
صحيح البخاري (1/ 119):
 عن أنس بن مالك، أن زيد بن ثابت، حدثه: " أنهم تسحروا مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قاموا إلى الصلاة، قلت: كم بينهما؟ قال: قدر خمسين أو ستين "، يعني آيةً".
فيض الباري  على  صحيح البخاري (2/ 177):
"فلو اجتمع الناس اليوم أيضاً في التغليس لقلنا به أيضاً، كما في «مبسوط السرخسي» في باب التيمم: أنه يستحب التغليس في الفجر، والتعجيل في الظهر إذا اجتمع الناس".
وفیہ ایضا (2/ 178):
"قوله: (كنت أتسحر في أهلي، ثم يكون سرعة بي أن أدرك صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم) ولعل هذا التغليس كان في رمضان خاصةً، وهكذا ينبغي عندنا إذا اجتمع الناس، وعليه العمل في دار العلوم بديوبند من عهد الأكابر". 

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  2/5/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب