021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فسخ نکاح کی صورت
74772طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میں نے اپنی بیوی کو فروی ۲۰۲۱ میں  کنائی الفاظ کے ساتھ طلاق مغلظہ دی تھی ،( جس کی صورت یہ تھی کہ  مستفتی  نکاح کے بعد سے لیکر ۲ فروری۲۰۲۱ تک    دو طلاقیں پہلے ہی دے  چکا تھا ، اور پھر  ۲ فروری کو  کنائی لفظ کے ذریعے ایک طلاق مزید دے دی)  اور پھر حلالہ کی غرض سے ستمبر۲۰۲۱میں  ایک شخص کے ساتھ ان کا  نکاح کر وادیا، نکاح مکمل طور پر شرعی طریقہ سے کروایا اور عقد کے دوران   "بعد میں بیوی کو  چھوڑنے یا طلاق دینے" کی شرط وغیرہ نہیں لگائی، البتہ عقد سے پہلے  یہ مفاہمت کر لی گئی تھی کہ  یہ نکاح مجبوری کی حالت  کیاجا رہا ہے اور حلالہ  کے  بعد  وہ شخص میری سابقہ بیوی کو طلا ق دے دے گا،(کیونکہ ہماری اپنی اولاد ہے اور مکمل گھرانہ ہے) اس شخص نے بھی یہی یقین دہانی کروائی تھی کہ  وہ میری سابقہ بیوی  کو طلاق  دے دے گا اور یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ یہ معاملہ گھر کی حد تک محدود رہے گا اور کسی کو اس کا علم نہ ہو پائیگا اور یہ کہ  اس کا مقصد نکاح سے اس عور ت کو سابقہ شوہر کے لیے حلال  کرنا ہی ہے ۔

نکاح کے بعد رخصتی اس عورت کی والدہ کے گھر کی گئی اور آگے کے معاملات وہیں ہوئے، اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ میری بیوی کو طلاق دے دیتا ، مگر  اس نے طلاق نہ دی ، اسے یہ بھی علم ہو گیا کہ  ہمارا ایک گھر ہے ،اب اس شخص نے ہمارے گھر پر  قبضہ کرنے کا سوچ رکھا ہے اور اس کےلیے گویا بلیک میلنگ کے حربے استعمال کر رہا ہے، نکاح کو ۲ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر وہ  میری سابقہ بیوی کو طلا ق نہیں دے رہا اور ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، اور وقت مانگ رہا ہے، وہ عورت کو اپنے گھر بھی نہیں لے گیا  کیونکہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے اپنے بچے بھی ہیں ، اس لیے گھر  لے جانے کا رسک بھی  نہیں اٹھا رہا، بلکہ  وہ  خود عورت کی والدہ کے گھر   چلا جاتا ہے اور وہیں اپنے مقاصد پورے کر لیتا ہے۔نیز اس تما عرصے میں وہ اس عورت کے خرچے یعنی نان نفقہ بھی نہیں دے رہا بلکہ خرچوں کی ادائیگی بھی میں خود کرتا ہوں۔

میری سابقہ بیوی بھی اس  سے تنگ ہو  چکی ہےکہ اس شخص نے اس نکاح کو محض حصول لذت کا ذریعہ بنا رکھا ہے، اور اس کا مشورہ یہ تھا  کہ ہم اس نکاح کے بارے میں اس شخص کے گھر والوں کو بتا دیتے ہیں ، پھر شاید اسے مجبورا  طلاق دینی پڑے۔

پوچھنا یہ تھا کہ اس شخص کے یہ افعال کیسے ہیں؟ اور اس    مسئلہ کے حل کے لیے کیا کیا جائز صورتیں ہو سکتی ہیں؟ اور شرعا ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید سمجھ لیجیے کہ :

(۱)- عام حالات میں"  بعد میں چھوڑ دینے" کی غرض سے محض  حلالہ کےلیے  نکاح کرنا  موجب گناہ ہے کہ نکاح کا شرعی مقصود  دائمی تعلق کا قیام ، پاکدامنی ،عورت کا  تحفظ اور  نسل کو آگے بڑھانا ہے،  محض حصول لذت اور عارضی تعلق کا قیام  نہیں، البتہ اگر بوقت مجبوری دوسرے فریق   کی اصلاح کی غرض سے اور ایک گھرانہ کو نقصان اور   تباہی سے بچانے کےلیے حلالہ کی نیت سے عقد میں کوئی شرط لگائے  بغیر نکاح کر لیا جائے تو   پھر اس کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔

(۲)-اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صور ت ممکن نہ رہے اور شوہر بیوی کو طلاق بھی نہ دے رہا ہو تو شریعت نے  بامر مجبوری عورت کو خلع کا حق دیا ہے، کہ عورت   کچھ مال دے کرمرد سے اپنی جان چھڑائے، اور اس صورت میں بھی اگر  زیادتی اور غلطی مرد کی طرف سے ہو تو مرد کے لیے خلع کی یہ  رقم وصول کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

(۳)-اگر خلع ممکن  نہ ہو مثلا مرد خلع  پر راضی نہ ہو  یا وہ اتنی زیادہ رقم کا مطالبہ کرے جسے ادا کرنا عورت کے اختیار میں  نہ ہو تو پھر    فسخ نکاح کے اسباب   پائے جانے کی صورت میں شریعت نے عورت کو فسخ نکاح کا حق دیا ہے، کہ وہ عدالت یا قاضی سے رجوع کرکے اس  نکاح  سے خود کو آزاد کروائے۔  فسخ نکاح کے اسباب  میں سے" نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہونا یا قادر ہونے کے باوجود ادا نہ کرنا" شامل ہے۔

اب صور ت مسئولہ کا حکم یہ ہے  کہ :

 (۱)-نئے شوہر کے دل میں عقد نکاح کے وقت  اگر  محض حصول لذت  کا ارادہ تھا تو اس فاسد  نیت پر وہ گناہگار ہے کہ یہ نیت شرعی  مقصود کے خلاف ہے، اور اگر اس کی نیت اصلاح کی تھی تو اس نیت پر اجر  کی امید ہے، مگر نکاح ہو جانے کے بعداس نکاح کو شرعی مقاصد کے برخلاف محض  حصول لذت کا ذریعہ بنا دینا[ جیسا کہ سوال میں مذکور ہے]    سخت گناہ  ہے۔

(۳،۲)-اگر اس دوسرے نکاح میں   میاں بیوی  کے درمیان  نباہ کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے  ، اور ان دونوں  میں سے کوئی بھی شرعی مقاصد کے تحت اس نکا ح کو برقرار  نہیں  رکھنا چاہتا تو پھر مرد کو چاہیے کو وہ عورت کو  اذیت دیے  بغیر طلاق دے دے، لیکن اگر مرد طلاق نہ دے تو ایسی صورت میں  بحالت مجبوری عورت کو  مرد  سے خلع لینے کا اختیار  حاصل ہے،جس کا مطلب یہ ہے  کہ عورت مرد کو مال  کی پیشکش  کرے اور اس کے بدلے مرد سے  طلاق حاصل کرے ، اگر مرد با آسانی  خلع پر راضی  نہ ہو رہا ہو تو پھر   مرد کے گھر والوں کو اس نکاح  کے متعلق سب کچھ بتا دینا چاہیے تاکہ دونوں خاندان مل کر کوئی  بہتر  حل نکال سکیں، اور اگر اس صورت میں بھی مرد خلع پر راضی نہ ہو  اور کوئی بہتر حل نہ نکل پا ئے تو ایسے  میں عورت  "نان نفقہ نہ ملنے" کی بنیاد  پر عدالت سے نکاح فسخ    کروا سکتی ہے، جس کی صورت یہ ہو گی کہ عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے پیش کرے ، اور متعلقہ جج شرعی شہادت وغیرہ کے  ذریعے  معاملہ کی پوری تحقیق کرے ، اگر عورت کا دعوی  صحیح ثابت ہو جائے  کہ اسکا  شوہر  خرچہ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا صلاحیت کے باجود خرچہ ادا  نہیں کرتا  تو اس کے شوہر سے کہا جائے  کہ عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، وگرنہ ہم تفریق کر دیں گے ، اس کے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا جج  عورت پر طلاق واقع کر دے۔

حوالہ جات
[البقرة: 229]
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ pوَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ}
[الإسراء: 34]
{وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا}
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (3/ 236)
الخلف في الوعد حرام.قال السبكي: ظاهر الآيات والسنة تقتضي وجوب الوفاء، وقال صاحب العقد الفريد في التقليد: إنما يوصف بما ذكر أي بأن خلف الوعد نفاق إذا قارن الوعد العزم على الخلف كما في قول المذكورين في آية {لئن أخرجتم لنخرجن معكم} [الحشر: 11] فوصفوا بالنفاق لإبطانهم خلاف ما أظهروا وأما من عزم على الوفاء ثم بدا له فلم يف بهذا لم يوجد منه صورة نفاق كما في الإحياء من حديث طويل عند أبي داود والترمذي مختصرا بلفظ «إذا وعد الرجل أخاه، ومن نيته أن يفي فلم يف فلا إثم عليه» (انتهى) .
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2149)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
وَاعْلَمْ أَنَّهُ اسْتَدَلَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي الْفُرُوعِ عَلَى كَرَاهَةِ اشْتِرَاطِ التَّحْلِيلِ بِالْقَوْلِ، فَقَالُوا: إِذَا تَزَوَّجَهَا بِشَرْطِ التَّحْلِيلِ بِأَنْ يَقُولَ: تَزَوَّجْتُكِ عَلَى أَنْ أُحِلَّكَ لَهُ، أَوْ تَقُولَ: هِيَ فَمَكْرُوهٌ كَرَاهَةَ تَحْرِيمِ الْمُنْتَهِضَةِ سَبَبًا لِلْعِقَابِ لِلْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ، وَقَالُوا: وَلَوْ نَوَيَا اشْتِرَاطَ التَّحْلِيلِ وَلَمْ يَقُولَا يَكُونُ الرَّجُلُ مَأْجورًا لِقَصْدِ الْإِصْلَاحِ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 414)
(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال.
سنن الترمذي ت بشار (2/ 390)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ.
سنن أبي داود (2/ 244)
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، أخبرنا أبو قزعة الباهلي، عن حكيم بن معاوية القشيري، عن أبيه، قال: قلت: يا رسول الله، ما حق زوجة أحدنا عليه؟، قال: «أن تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت، أو اكتسبت، ولا تضرب الوجه، ولا تقبح، ولا تهجر [ص:245] إلا في البيت»،
مختصر خليل (ص: 137)
وَلَهَا الْفَسْخُ إنْ عَجَزَ عَنْ نَفَقَةٍ حَاضِرَةٍ لا ماضية.
 مجموعہ قوانین اسلامی
دفعہ نمبر ۷۹،ص۱۷۰
دفعہ نمبر ۸۰ ص ۱۹۹
حیلہ ناجزہ ( ص ۲۱۷)
عدم نفقہ کی وجہ سے فسخ نکاح کا مطالبہ

سعدمجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

یکم  جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب